بی بی شہید نے مشرف کو اپنا ممکنہ قاتل کیوں قرار دیا تھا؟

 

 

دنیائے اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کی راولپنڈی میں شہادت کو 17 برس بیت گئے لیکن انکے قتل کی سازش کے ماسٹر مائنڈ پرویز مشرف اور کیس میں نامزد دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

بینظیر بھٹو کے قتل کے اصل محرکات کا پتہ چلانا اور اس جرم میں شریک افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا تو دور کی بات، گذشتہ 17 سالوں میں اب تک بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں صرف ان دو پولیس والوں کو سزا ہوئی جنھوں نے کرائم سین یعنی جائے قتل کو دھو دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ ان پولیس والوں کی سزا کو بھی عدالتوں نے ناانصافی قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا تھا جسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ پولیس والوں نے کرائم سین کو فوجی حکام کے کہنے پر دھلوایا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دن دیہاڑے بینظیر کا راولپنڈی میں بہیمانہ قتل نا ممکن ہوتا اگر فوجی حکام کے کہنے پر محترمہ کے گرد موجود سینکڑوں پولیس والوں کا سیکیورٹی کارڈن یا حفاظتی حصار ختم نہ کروا دیا گیا ہوتا۔ ایسا پرویز مشرف کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا جو کہ 2007 میں سیاہ و سفید کا حکمران تھا اور جس نے ملک واپسی کی صورت میں بے نظیر بھٹو کو انکی جان کے جانے کی دھمکی بھی دی تھی۔

بینظیر بھٹو شہید مسلم دنیا کی پہلی خاتون تھیں جنھیں کسی ملک کی سربراہی کا موقع ملا۔ 27 دسمبر 2007 کی شام کو جلسہ ختم ہونے کے فوری بعد لیاقت باغ سے باہر آنے والے محترمہ کے جلوس کا حفاظتی حصار ہٹائے جانے کے بعد 15 سالہ حملہ آور بلال نے خود کش دھماکہ کردیا جس سے ہر طرف تباہی مچ گئی۔ دھماکہ کرنے سے چند لمحے پہلے بلال نے پسٹل سے محترمہ کے سر کو بھی نشانہ بنایا۔ اس حملے کے وقت محترمہ گاڑی کے سن روف سے باہر نکل کر مجمعے کو ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ تاہم دھماکے اور فائرنگ کے فورا بعد محترمہ گاڑی کے اندر گر گیئں۔ انہیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو پائیں۔

بینظیر بھٹو پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا سیاسی سفر ایک فوجی آمر نے ختم کیا جب 1979 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انھیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ بینظیر بھٹو اس کے بعد دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن فوجی اسٹیبلشمینٹ نے کبھی بھی ان پر اعتبار نہیں کیا اور کرپشن کے الزامات ڈال۔کر انھیں حکومت سے نکال باہر کیا۔ اپنی شہادت کے وقت بینظیر بھٹو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ انکی اچانک شہادت کے بعد پاکستان میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل گئی۔ ان کے چاہنے والوں نے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کیا اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے بازی کی۔

2017 میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بی بی کی شہادت کے دس سال بعد دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ شاید اسٹیبلشمینٹ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہو۔ جب مشرف سے پوچھا گیا کہ کیا اسٹیبلیشمینٹ میں موجود سرکش عناصر کا پاکستانی طالبان سے بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تعلق تھا، تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں بالکل۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی طور پر بٹا ہوا ہے۔ مشرف کے مطابق ان عناصر کی موجودگی شاید بینظیر بھٹو کی موت کا سبب بنی ہو۔

سابق فوجی سربراہ کی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ کافی تعجب انگیز تھا۔ عمومی طور پر پاکستان میں فوجی رہنما شدت پسند جہادی حملوں میں ریاست کے ملوث ہونے کے الزام کو قطعاً غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا انھیں ریاست کے شرپسند عناصر کے اس حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی مخصوص معلومات تھیں، تو مشرف نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی حقائق تو موجود نہیں لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ کافی حد تک درست ہے۔ ایک ایسی خاتون جو مغربی ممالک کی جانب مائل ہو، وہ ان سخت گیر عناصر کی نظر میں آسکتی ہے۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف پر خود اس مقدمے میں قتل کا الزام، قتل کی سازش اور قتل کرنے کے لیے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگے ہیں۔

چاہت فتح علی خان نے یوٹیوب پر عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

 

تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکتوبر 2007 میں ملک واپسی کے فورا بعد جب کراچی میں کارساز کے مقام پر بی بی کے قافلے پر دو خودکش حملے ہوئے تو انہوں نے مشرف کے قریب ترین افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا جن میں تب کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ بھی شامل تھے۔ اس حملے کے فورا بعد محترمہ نے ایک خفیہ خط میں سی این این سے وابستہ ایک امریکی صحافی کو لکھا تھا کہ اگر انہیں قتل کر دیا جائے تو اس کی ذمہ دار جنرل پرویز مشرف پر عائد ہونی چاہیے۔ یہ خط بی بی کی شہادت کے بعد منظر عام پر آیا تھا۔

مشرف کے خلاف بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی پیروی کرنے والے وکلا کے مطابق مشرف نے 25 ستمبر کو بینظیر کو فون کیا جب وہ نیو یارک میں تھیں اور اپنی آٹھ سالہ ملک بدری ختم کرنے سے تین ہفتے دور تھیں۔ بینظیر بھٹو کے طویل عرصے سے قریبی رفیق مارک سیگل اور صحافی ران سسکنڈ دونوں نے بتایا کہ وہ اس فون کال کے وقت بینظیر بھٹو کے ساتھ موجود تھے۔ مارک سیگل کہتے ہیں کہ فون کال ختم ہونے کے فوراً بعد بینظیر بھٹو نے کہا کہ مشرف نے مجھے دھمکی دی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ پاکستان واپس مت آؤ ۔ مشرف نے مجھے خبردار کیا کہ واپس مت آنا۔ بینظیر نے انہیں بتایا کہ مشرف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میرے واپس پاکستان آنے کے بعد اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور مزید کہا کہ میری زندگی کی سلامتی اور سکیورٹی پرویز مشرف سے میرے تعلق پر منحصر ہے۔دوسری جانب بینظیر بھٹو کے صاحبزادے اور سیاسی وارث بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ مشرف نے تب کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا۔ انھوں نے جان بوجھ کر میری والدہ کی سکیورٹی کو کمزور کیا تاکہ وہ قتل ہو جائیں اور منظر سے ہٹ جائیں۔

محترمہ کی شہادت کو سترہ برس گزر گئے لیکن آج بھی ان کا قتل ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ ان کے قتل کے چند ہفتوں بعد پانچ ملزمان نے القاعدہ اور طالبان کے کہنے پر 15 سالہ خود کش بمبار بلال کی مدد کا اعتراف کیا تھا۔ حراست میں لیے جانے والے پہلے شخص اعتزاز شاہ کو پاکستانی طالبان نے کہا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کے لیے خودکش بمبار منتخب ہوا ہے لیکن اسے متبادل بمبار کی حیثیت دے دی گئی جو اس وقت سامنے آتا جب پہلی کوشش ناکام ہو جاتی۔ اس کے علاوہ دو اور افراد، رشید احمد اور شیر زمان نے اعتراف کیا کہ وہ اس سازش کے منتظمین تھے۔ ان کے علاوہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے حسنین گل اور رفاقت حسین نے حکام کو بتایا کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کو قتل کرنے سے ایک رات قبل بلال کو رہائش فراہم کی تھی۔گو کہ یہ تمام اعترافی بیانات بعد میں واپس لے لیے گئے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کے قتل سے چند گھنٹے قبل ملنے والے فون ریکارڈ سے سازشیوں کے محل وقوع اور گفتگو اِن اعترافی بیانات کی سچائی کی تصدیق کرتی ہے جو کہ بعد میں واپس لے لیے گئے تھے۔حسنین گل نے پولیس کو اس اپارٹمنٹ میں مزید شواہد دکھائے تھے جہاں بلال نے رات گزاری تھی۔ بلال کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے اور اس اپارٹمنٹ سے ملنے والے ڈی این اے کو بعد میں امریکی لیب میں تصدیق کے لیے بھیجا گیا جہاں وہ آپس میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔

بی بی کے قتل کی تفتیش کرنے والے سرکاری وکلا کا خیال تھا کہ وہ مبینہ منصوبہ سازوں تک پہنچ جائیں گے لیکن ستمبر 2020 میں یہ مقدمہ تب ختم ہو گیا جب جج نے فیصلہ دیا کہ شواہد جمع کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے طریقہ کار میں غلطیاں تھیں اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ تاہم ابھی پانچوں ملزمان اپیل کا نتیجہ آنے تک حراست میں ہیں۔ متعدد خفیہ دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے بی بی قتل کیس کی تفتیش اتنی خراب طریقے سے کی گئی تھی کہ ایسا لگتا تھا جیسے پولیس والے نچلے درجے کے کارکنان کی گرفتاری کے بعد اصل سرغنہ یا ان کے گروہ کو ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ پولیس کی تفتیش میں کوتاہیاں 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد بھی کافی عیاں ہوئیں۔ اس واقعے میں دو خود کش بمباروں نے بینظیر بھٹو کے کراچی ایئرپورٹ سے شہر آنے والے قافلے پر حملہ کیا جس میں 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور یہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں سب سے بڑے واقعات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ پولیس کی اس حملے میں تفتیش اتنی نیم دلی سے کی گئی تھی کہ خودکش بمباروں کی کبھی بھی شناخت نہ ہوسکی۔ اس تفتیش کے سربراہ، سعود مرزا نے کہا تھا کہ ایک شخص کی انھوں نے اُس کے چہرے کے مخصوص نقوش سے شناخت کی تھی کہ وہ کراچی میں رہائش پزیر افریقی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ خودکش بمباروں کی شناخت کے حصول میں یہ اہم اطلاع کبھی بھی عام عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔

بینظیر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ انھوں نے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بی بی کے قتل کی تفتیش کے لیے مدد لی تھی اور ساتھ ساتھ اقوام متحدہ سے تفتیشی کمیشن بھی بنوایا تھا جس نے بینظیر بھٹو کے قتل اور اس سے پہلے کے حالات اور عوامل کا جائزہ لیا تھا۔لیکن اس انکوائری کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ تفتیش کے دوران ان کی راہ میں بار بار روڑے اٹکائے گئے اور یہ رکاوٹیں صرف فوج کی جانب سے نہیں بلکہ حکومتی وزرا کی جانب سے بھی کھڑی کی گئیں۔ بہت سے فوجی اہلکار اور سیاست دانوں نے تفتیش میں تعاون سے صاف انکار کیا۔ تفتیش کاروں نے مزید بتایا کہ تحقیقات میں پیش رفت ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کو فراہم کردہ حفاظتی مکان بھی واپس لے لیا گیا اور ان کی حفاظت پر معمور سیکورٹی اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔ لہذااس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے عوامل ڈھونڈنے کے عمل کو روکا گیا ہے۔

بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش کرنے والی طاقتوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اصل منصوبہ سازوں تک نہ پہنچا جا سکے۔ اسی لیے ان طاقتوں نے نادر اور نصراللہ نامی ان دو افراد کو جنھوں نے خودکش حملہ آور بلال کو بینظیر بھٹو تک پہنچنے میں مدد کی تھی، 15 جنوری 2008 کو ایک فوجی چوکی پر مار دیا۔ دراصل ان دونوں کا قتل ایک انکاؤنٹر تھا جو کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کا عام نام ہے۔ نادر اور نصراللہ طالبان کے حامی حقانی نیٹ ورک کے مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کے چیف پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو 3 مئی 2013 کو اسلام آباد میں عدالت جاتے ہوئے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کے ہائی پروفائل قتل میں مشرف کے واضح کردار کے باوجود اسے قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس گھناؤنے واقعہ میں برابر کی ملوث ہے۔ اگر فوج غیر ریاستی عناصر کی سہولت کاری نہ کرتی تو ان کے لئے بینظیر کو ٹارگٹ کرنا آسان نہ تھا۔ مشرف کو آئین پاکستان سبوتاژ کرنے کے جرم میں ایک خصوصی عدالت غدار قرار دے کر سزائے موت بھی سنائی تھی لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اسے دبئی سے پاکستان لاتا اور عدالتی فیصلے کے مطابق اسلام آباد کے ڈی چوک میں تین روز تک پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ملک کے متفقہ آئین سے کھلواڑ کرنے والے اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کو قتل کروانے والے کے انجام سے دیگر جمہوریت دشمن ریاستی عناصر بھی ہمیشہ کے لیے عبرت حاصل کرلیتے۔

Back to top button