کیا حکومت تنخواہ دار طبقے پر مجوزہ ٹیکس ختم کرنے والی ہے؟

ملکی معاشی حالات اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا اضافی بوجھ تجویز کیا ہے، انکم ٹیکس کو 35 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کرکے 100 ارب کی اضافی وصولی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، بجٹ میں مجموعی طور پر ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ 38 کھرب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے پر حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے، پیپلزپارٹی نے ٹیکس بڑھانے کی بھرپور مخالفت کی ہے جبکہ ایم کیو ایم نے سالانہ 12 لاکھ روپے آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر تجویز کردہ ٹیکس ختم ہو سکتا ہے؟

معاشی تجزیہ کار و سینیئر صحافی مہتاب حیدرکے مطابق چونکہ پاکستان میں کاروباری طبقہ مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتا، صرف تنخواہ دار ہی ٹیکس دیتا ہے اور اس طبقے سے ٹیکس کی وصولی انتہائی آسان ہے اس لیے حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا ہے۔مہتاب حیدر نے کہاکہ حکومت نے اس مرتبہ بجٹ میں 38 کھرب کی ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا ہے، بجٹ میں جو ٹیکسز تجویز کیے گئے ہیں وہ تمام عائد ہوں گے البتہ اپوزیشن اور اتحادیوں کے احتجاج کے باعث ہو سکتا ہے کہ ان کی شرح میں کمی کی جائے۔جیسے انکم ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ 10 فیصد کی جگہ 7.5 فیصد اضافہ کیا جائے، اس طرح اپوزیشن اور اتحادیوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے جائیں گے اور ٹیکس وصولی بھی بڑھ جائے گی۔

تاہم معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی کے مطابق حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر پہلے سے عائد انکم ٹیکس کو 35 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کیا ہے، اس طرح حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں 100 ارب روپے کی اضافی وصولی کا امکان ہے۔انہوں نے کہاکہ چیئرمین ایف بی آر کہہ چکے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس بڑھانے کا دباؤ آئی ایم ایف کی جانب سے ہے، اس لیے یہ واضح ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ہر صورت بڑھے گا لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ٹیکس کا بوجھ کتنا بڑھایا جاتا ہے۔شعیب نظامی کا مزید کہنا تھا کہ مختلف معاشی ماہرین نے حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر 100 ارب کا اضافی بوجھ نہ ڈالے بلکہ حکومت اپنے 1400 ارب کے ترقیاتی بجٹ میں 100 ارب روپے کی کمی کرے اور آمدن پر ٹیکس کے معاملے میں تنخواہ دار طبقے اور کمپنیوں کو ریلیف دے۔

شعیب نظامی کا مزید کہنا تھا ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ 370 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں زرعی شعبے سے 8 ارب اور ریٹیل سیکٹر سے محض 20 ارب روپے انکم ٹیکس جمع ہوتا ہے، اس لیے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے۔شعیب نظامی نے کہاکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے پر ریلیف کے لیے کوششیں کریں گے اور جب بجٹ کی منظوری 28 یا 29 جون کو ہوگی تو اس میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کوئی نہ کوئی ریلیف اقدامات شامل کیے جائیں گے اور اس کے لیے آئی ایم ایف سے ایک بار پھر مشاورت بھی کی جائے گی۔

Back to top button