کپتان جیل میں گرمی سے پریشان، رہائی کےلیے منتیں اور ترلے

جون کی گرمی نے اڈیالہ جیل میں خود ساختہ انقلابی کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے ہیں۔پارٹی کی مسلسل ناکام ہونے والی احتجاجی وسیاسی حکمت عملی نے بوڑھے انقلابی کے چڑ چڑے پن میں اضافہ کر دیا ہے ۔جیل میں ملاقات کرنے والے پارٹی رہنماؤں سے عمران خان کی قید سے رہائی بارے فریا د شدت اختیار کر گئی ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان جیل میں ہر ملاقاتی سے کہہ رہا ہے کہ ”مجھے کسی صورت باہر نکالو ۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد میں موجود مصدقہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا خلاصہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں موجودمرکزی دفتر بند کر دیا گیا تھا جو اب کھل چکا ہے اور اس کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہو چکی ہیں۔ جہاں پی ٹی آئی کے وکلا، پارٹی رہنماؤں اور علیمہ باجی کا آنا جانا شروع ہے۔ دفتر میں موجود ذرائع کو انہی رہنماؤں کے مابین ہونے والی گفتگو سے عمران خان کی جیل میں بڑھتی پریشانیوں کا علم ہوتا رہتا ہے۔ ان میں سے بیشتر ہر دوسرے تیسرے دن جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے آتے ہیں۔ جیل سے واپسی پر یہ سب ہی رٹا رٹایا جملہ بولتے ہیں کہ ” خان ڈٹا ہوا ہے۔ چاہے ساری عمر سے جیل میں گزارنی پڑے لیکن وہ ڈیل نہیں کرے گا۔ تا ہم ذرائع کے بقول اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ عمران خان جیل میں اس قدر پریشان ہے کہ ہر ملاقات میں وکلا سے ان کا پہلا سوال ہی اپنی ممکنہ رہائی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب سے گرمیاں شروع ہوئی ہیں۔ رہائی کے لیے عمران خان کی خواہش بڑھ گئی ہے۔ کئی بار یہ شکوہ ان کی زبان پر ہوتا ہے کہ بہت سے وکلا ان کے کیس دل جمعی سے نہیں لڑرہے۔ یہ وکلا بانی پی ٹی آئی کو ہر بار جلد رہائی کی امید دلاتے ہیں لیکن یہ امید پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس کے نتیجے میں عمران خان کا چڑ چڑا پن بڑھتا جارہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وکلا نے پہلے عمران خان کو یقین دلایا تھا کہ وہ عید الفطر گھر پر منائیں گے۔ میٹھی عید گزرگئی تو کہا گیا عید الاضحیٰ سے پہلے وہ باہر ہوں گے۔ لیکن بڑی عید بھی گزر چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو ادراک ہو چکا ہے کہ وکلا کی تسلیاں جھوٹی ہیں۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ اگر وہ زیر سماعت تمام مقدمات سے بری بھی ہو جائیں یا سب میں انہیں ضمانتیں بھی مل جائیں تب بھی ان کے فوری باہر آنے کا امکان نہیں کیونکہ ان کی رہائی سے قبل ان پر کوئی دوسرا کیس بنا دیا جائے گا۔

عمران خان کو علم ہے کہ عدلیہ سے چلنے والی ٹھنڈی ہواؤں کے باوجود ان کی فوری رہائی کا واحد راستہ ”ڈیل“ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران وہ متعدد مرتبہ یہ عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دوسرا فریق یعنی اسٹیبلشمنٹ فی الحال ان کی فریاد سنے کو تیار نہیں ۔ اپنی تازہ یکطرفہ پیشکش میں بانی پی ٹی آئی نے فرمایا وہ اگر مجھے قائل کر لیں تو میں ملک کی خاطر پیچھے ہٹنے کو تیار ہوں۔“جب انقلابی کی اس تازہ فریاد کو لے کر اسلام آباد کے بعض با خبر لوگوں سے استفسار کیا گیا کہ کیا کوئی گنجائش نکل رہی ہے؟ جواب تھا نہیں۔ کم از کم ایک برس سے پہلے تو انقلابی کے باہر آنے کا امکان نہیں۔ شرط وہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات پر ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح ٹی وی پر آکر قوم سے معافی مانگ لیں تو کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔“ وکلا کی جھوٹی تسلیوں اور رقیب کی سرد مہری سے مایوس عمران خان نے اب اپنی فوری رہائی کی آس اپنے ووٹرز اور سپوٹرز سے لگالی ہے۔ بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ان کی کال پر عوام کا سمندر سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ یوں انہیں اپنی رہائی کے لیے نہ عدالتوں کے ریلیف کی ضرورت پڑے گی اور نہ ڈیل کے لیے منتیں کرنی پڑیں گی۔ اس توقع پر وہ الیکشن کے بعد سے ایک درجن سے زائد بار احتجاج کی کال دے چکے ہیں لیکن یہ کال اب تک ٹھس ہوتی چلی آرہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتجاج کی کال مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ یا کسی اور عوامی مسئلے پر نہیں دی جاتی۔ احتجاج کا یک نکاتی ایجنڈا عمران خان کی رہائی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تازہ کال عمران خان نے جمعہ کے روز دی تھی۔ پورے ملک میں مجموعی طور پر چند ہزار لوگ بھی نہیں نکلے خیبر پختو نخوا جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے وہاں بھی تمام تر سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود پشاور اور کچھ شہروں میں چند ہزار لوگوں کو جمع کیا جاسکا۔ خاص طور پر پنجاب میں لاہور سمیت مختلف شہروں میں یہ شو بری طرح فلاپ رہا۔

صوبائی دارالحکومت میں موجود پی ٹی آئی سے فاصلہ اختیار کر لینے والے ایک سابق عہدیدار کے مطابق پی ٹی آئی کی سپورٹ سے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ارکان ہی عمران خان کی کال پر کان دھرنے کو تیار نہیں تو عام ووٹرز سپوٹرز کیوں باہر نکلے گا۔ اس سابق عہد یدار کے مطابق پنجاب سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سوا سو سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ لیکن احتجاج کے لئے ان میں سے دس فیصد ارکان بھی باہر نہیں نکلے۔ ہر ہڑتال کی کال سے ایک روز پہلے پنجاب حکومت چند چھاپے مارتی ہے جس سے ان ارکان کو انڈر گراؤنڈ ہونے کا جواز مل جاتا ہے۔ جمعہ کے روز تو گرفتاری کے خوف سے پی ٹی آئی کے کئی درجن ارکان نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جہاں تک کارکنوں کی بات ہے ان پر تاحال 9 مئی کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن کی ہیبت طاری ہے۔ ایسے میں عمران خان کی رہائی کی خاطر گرفتاری کا خطرہ کوئی مول لینے کے لیے تیار نہیں۔

احتجاج کو لے کر بلوچستان میں پنجاب سے بھی زیادہ بدتر صورت حال رہی۔ ہر شہر میں ٹولیوں کی شکل میں مٹھی بھر کارکنان ادھر ادھر ڈولتے رہے۔ جبکہ کسی کونے میں چھپا آئین شکن اور انگوٹھوں کے ٹھپے لگوا کر اسمبلی میں پہنچنے والا قاسم سوری ان بے چارے مٹھی بھر کارکنوں کی تصاویر اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ڈال کر یہ پوسٹیں لگا تارہا اب خان کی رہائی کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ سندھ میں ویسے ہی عمران خان کی اپیل کوکوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ کراچی میں سب سے قابل ذکر احتجاج پریس کلب پر کیا گیا۔ جہاں سابق صدر عارف علوی نمک حلال کرنے کے لیے ڈیڑھ دو درجن کارکنوں کو لے کر پہنچے تھے۔ چند سر پھرے شیر شاہ میں بھی دکھائی دیئے ۔ باقی ہر طرف سناٹا تھا۔ پی ٹی آئی سیکریٹریٹ اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ناکام ترین احتجاجی تحریک پر عمران خان بہت مایوس اور برہم ہیں۔ اس حوالے سے وہ جیل میں ملاقات کرنے والے پارٹی رہنماؤں کی کئی بار کلاس لے چکے ہیں۔ ہر بار انہیں یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اگلا احتجاج بھر پور ہوگا۔ اور یہ که تمام منتخب ارکان کو بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچایا جاچکا ہے کہ وہ اپنے حلقوں سے کارکنوں کی قابل ذکر تعداد کو لے کر باہر نکلیں۔ تا ہم عمران خان کی یہ خواہش تاحال پوری نہیں ہوسکی ہے۔ پنجاب کے 90 فیصد ارکان اسمبلی تو احتجاج کی کال سے لاتعلق ہیں ہی، صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی صورت حال حوصلہ افزا نہیں۔ جہاں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں اور وہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔ لیکن عام انتخابات کے بعد سے اب تک ہونے والے کسی احتجاج کے موقع پر بھی پشاور اور دیگر شہروں میں ایک لاکھ سے زائد عوام اکٹھے نہیں کیے جاسکے ہیں ۔ حالانکہ احتجاج کی ہر کال کامیاب بنانے کے لیے بے دریغ سرکاری مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے۔

Back to top button