پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین صلح کا کیا معاہدہ ہوا ہے

وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو رام کرنے کیلئے عوام پر 38 کھرب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز پیش کرنے پر حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی نے نہ صرف بھرپور احتجاج کیا بلکہ بجٹ سازی کے عمل میں عدم مشاورت پر اپنے تحفظات کا بھی کھل کر اظہار کیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے احتجاجی آوازیں بلند ہونے کے بعدوفاقی بجٹ کی منظوری بھی مشکل نظر آرہی تھی تاہم اب ایسا لگ رہا ہے کہ معاملات حل ہوگئے ہیں۔ کیونکہ لیگی قیادت نے پیپلز پارٹی کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے اس کے تمام مطالبات ماننے کا اعلان کر دیا ہے۔مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے تمام تحفظات دور کرنے کی بڑی یقین دہانی کرا دی ہے۔

خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کو پی ایس ڈی پی خصوصاً پنجاب میں ترقیاتی فنڈز میں نظر انداز کرنے اور پنجاب کی بیورو کریسی کے تقرر و تبادلوں سمیت دیگر امور پر بھی تحفظات تھے، بجٹ تیاری کے حتمی مرحلے کے دوران اعتماد میں نہ لینے پر بھی پیپلز پارٹی نالاں تھی۔

ذرائع کے مطابق اب وفاقی و پنجاب حکومت نے پیپلزپارٹی کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے ہیں،پیپلز پارٹی نے مطمئن ہونے کے بعد ہی بجٹ اجلاس میں شمولیت کا فیصلہ کرکے رضا مندی ظاہر کی ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے بھی مل کر چلنے کا پیغام پہنچا دیا گیا ہے، نون لیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی انتظامیہ اور لاء افسران کی تقرریوں، مختلف بورڈز اور اتھارٹیز میں نمائندگی، بلدیاتی انتخابات کا جلد انعقاد اور نون لیگ کے ارکان پارلیمنٹ کے مساوی ترقیاتی فنڈز کی تقسیم سے متعلق مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔دونوں جماعتوں کے ارکان نے تصدیق کی ہے کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل سیکریٹری تعینات کر دیا گیا ہے جس کا کام پی پی کے مسائل حل کرنا ہے۔اب سے پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کی مشاورت سے ان اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز ضلعی پولیس افسران اور ریونیو افسران کا تقرر کرے گی جہاں پارٹی کو فعال حمایت حاصل ہے۔12 اضلاع کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ملتان، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، راولپنڈی، راجن پور وغیرہ شامل ہیں اور ان اضلاع میں مشاورت سے افسران کا تقرر ہوگا۔پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اگرچہ سندھ اسمبلی میں نون لیگ کی نمائندگی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی بیوروکریسی کے تقرر میں نون لیگ کی درخواست پر عمل کرنے کو تیار ہے۔پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کو سندھ کے تمام اضلاع میں شریک اقتدار کرے گی۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں مفاہمت بارے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ڈیڈ لاک کی بنیادی وجہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام تھا، پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ میں سے پی ایس ڈی پی کے تحت سندھ میں زیادہ منصوبے چاہتی ہے، لیکن یہ ڈیڈ لاک نہیں صرف مذاکرات کی نشستیں تھیں، تاہم اب ن لیگ پیپلز پارٹی کے تقریباً تمام مطالبات ہی تسلیم کر لئے ہیں۔مجیب الرحمان شامی کے مطابق ن لیگ تو حکومت کے قیام سے قبل ہی پیپلز پارٹی کو کابینہ میں شمولیت کی دعوت دے چکی تھی اور بعد میں بھی دے چکی ہے، لیکن پیپلز پارٹی کا وفاقی کابینہ شامل ہونے کا اس وقت تو کوئی امکان نظر نہیں آرہا، اگر پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوتی تو پنجاب میں بھی شامل نہیں ہوگی۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی پنجاب کے کچھ اضلاع میں انتظامی اختیار چاہتی ہے جو کہ اسے دے دیا گیا ہے۔سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہاکہ بجٹ منظور کرنا پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی مجبوری ہے، دونوں جماعتوں کے پاس اس وقت علیحدگی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

تاہم سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان جو ڈیڈ لاک تھا وہ ختم ہوچکا ہے، پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتی ہے اس کے علاوہ سندھ میں مختلف منصوبوں کے لیے بجٹ میں حصہ چاہتی ہے، اور یہ ایسے مطالبات نہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی ڈیڈ لاک بن جائے۔انصار عباسی نے کہاکہ پیپلز پارٹی کا اس وقت وفاقی کابینہ یا پنجاب کابینہ میں شمولیت کا امکان نظر نہیں آرہا، پیپلز پارٹی کے پاس صدر، چیئرمین سینیٹ سمیت اہم عہدے ہیں، پیپلز پارٹی کابینہ میں شمولیت کے لیے ابھی سنجیدہ نہیں ہے۔

Back to top button