دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنا ضروری کیوں ہے؟

اگرچہ وفاقی حکومت نے عزم استحکام کوملک میں پائیدار امن و استحکام کے وژن سے منسوب کرتے ہوئے اس کا موازنہ ضرب عضب اور راہ نجات جیسے فوجی آپریشنز سے کرنے کو بڑی غلطی قرار دے دیا ہے تاہم پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں ‘عزم استحکام’ کے نام سے آپریشن شروع کرنے کے اعلان پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے۔بعض حلقے اس اعلان کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کرتے ہوئے معاملے کو پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ہفتے کو وزیرِ اعظم پاکستان کی زیرِ صدارت نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی مہم تیز کرنے کے لیے ‘عزم استحکام’ آپریشن کو ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی اور دیگر اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔آپریشن کی منظوری دینے والی اپیکس کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کو افغانستان سے متصل مغربی سرحد پر آئے روز مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو سیکیورٹی کی صورتِ حال 2009-2008 کے مقابلے میں کافی تسلی بخش ہے تاہم آپریشن کا فیصلہ پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تھوڑی جلد بازی کا سہارا لیا ہے اور اس اعلان کے تحت حکومت ایک ماحول بنانے کا سوچ رہی ہو کہ لوگوں کا ممکنہ ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔

فاٹا ریسرچ سینٹر کے سابق سربراہ اور سیکیورٹی اُمور کے ماہرڈاکٹر اشرف علی کے مطابق اگر ماضی کی بات کی جائے تو شدت پسند منظم طریقے سے علاقوں میں وجود رکھتے تھے جس کے خلاف آپریشن نسبتاً آسان ہوتا تھا۔سن 2014 میں آپریشن ‘ضربِ عضب’ کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی کا کہنا تھا کہ اس وقت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیمیں شمالی وزیرستان میں منظم تھیں اور وہاں عملاً حکومتی رٹ نہیں تھی۔اُن کے بقول شمالی وزیرستان میں آبادی کے انخلا کے بعد بھرپور فوجی آپریشن کیا گیا جس کے بعد علاقے کو بڑی حد تک شدت پسندوں سے خالی کرا لیا گیا۔

ڈاکٹر اشرف علی کے بقول اس وقت صورتِ حال مختلف ہے۔ شدت پسندوں کا کسی ایک علاقے میں وجود نہیں ہے۔ اسی لئے لگتا ہے حکومت نے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز گزشتہ دو برس سے انٹیلی جینس کی بنیاد پر آپریشنز کر رہی ہیں اور اس دوران ایسے سینکڑوں آپریشنز کیے گئے ہیں۔

شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم سینئر تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ آپریشن کا بظاہر مقصد گزشتہ تین برسوں کے دوران قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو ختم کرنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی خیبر، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں حکمتِ عملی کے ساتھ حملے کر رہی ہے۔ تاکہ ان علاقوں میں دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ لہذٰا اسے روکنے کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی درکار تھیلگتا ہے اسی بنیاد پر حکومت نے عزم استحکام کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی معاملات کو قریب سے دیکھنے والے صحافی لحاظ علی کے مطابق صوبے اور قبائلی اضلاع میں اب تک 21 فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں۔ اس دوران شدت پسندوں کے ساتھ جنگ بندی کے آٹھ معاہدے ہوئے۔ تاہم ان امن معاہدوں کے خاتمے کے ساتھ شدت پسند تنظیمیں مزید طاقت ور بن کر سامنے آئیں۔لحاظ علی کے بقول شدت پسند تنظیموں کے خلاف کیے جانے والے تقریباً ہر فوجی آپریشن کو عوامی حمایت حاصل تھی جس کی سب سے کامیاب مثال 2009 میں ہونے والے ‘سوات آپریشن’ کی ہے۔ان کے مطابق اس وقت بدقسمتی یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں میں فوج اور حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے جس کا عملی مظاہرہ نہ صرف صوبائی اور قومی نمائندگان نے اسمبلی کے فلور پر کیا بلکہ جلسوں اور ریلیوں کے دوران بھی کیا جا رہا ہے۔ان کے بقول پہلے افغان سرحد سے متصل علاقوں کو قبائلی علاقاجات تصور کیا جاتا تھا جو کہ وفاق کی نگرانی میں آتے تھے۔ اب وہ تمام علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں اور اس لحاظ سے ان علاقوں کی انتظامی حیثیت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں وہ نہیں سمجھتے کہ موجودہ صورتِ حال میں فوجی آپریشن کے کوئی خاطر خوا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

Back to top button