کیا نقیب کا 10 سالہ بیٹا راؤ انوار سے باپ کا انتقام لے پائے گا؟

حکومت پاکستان تو کچھ نہ کر پائی لیکن امریکا نے جعلی پولیس مقابلوں کے بدنام زمانہ مرکزی کردار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 400 افراد کا قاتل قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ راؤ انوار نقیب اللہ محسود قتل کیس کا بھی مرکزی ملزم ہے۔ راو انوار نے مخالف پارٹی سے پیسے لے کر نقیب کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا تھا۔ تاہم طاقتور ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے قانون کے لمبے ہاتھ اس کے گریبان تک نہیں پہنچ پا رہے۔
ایجنسیاں راؤ انوار سے کراچی میں سینکڑوں دہشت گردوں کا انکاونٹر کروا چکی ہیں لہذا وہ سے اب تک تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت پاکستان، برما، سلواکیہ، ڈی آر کانگو اور جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والی 18 شخصیات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ان تمام افراد کے خلاف او ایف اے چی کے ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13818 کے تحت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مالی بے ضابطگیوں پر کارروائی عمل میں لائی گئی، امریکی محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات میں راؤ انوار کو انوار خان لکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 190 پولیس مقابلوں میں 400 افراد کو قتل کیا ہے جن میں نقیب اللہ محسود بھی شامل ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق راؤ انوار نے پولیس اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹھگوں کے نیٹ ورک کی مدد کی جو مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، منشیات کی فروخت اور قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ راؤ انوار پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں دنیا بھر سے مجموعی طور پر 18 افراد پر امریکی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کے قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والا راؤ انوار پولیس سروسز سے ریٹائر ہو چکا ہے اور اب وہ ملک سے باہر جانے کی کوششوں میں ہے۔ اپنا نام ای سی ایل پر ہونے کی وجہ سے اس نے عدالت سے باہر جانے کی درخواست کر رکھی ہے جس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ 13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا تھا جنہیں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا تھا۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ راو کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں تھی جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع بھی دیا۔ تاہم دو ھفتے مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوا، جہاں اسے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
تاہم طاقتور حلقوں سے تعلق کی بنا پر اسے جلد ہی ضمانت مل گئی۔
دوسری جانب نقیب اللہ محسود کا والد اپنے بیٹے کےلیے انصاف مانگتا دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد پچھلے دنوں خالق حقیقی سے جا ملا۔
کیس کا مرکزی ملزم راؤ انوار آج بھی ضمانت پر ہ۔ نقیب کے والد محمد خان کے انتقال کے بعد اب نقیب اللہ محسود کا دس سالہ بیٹا انصاف کی جنگ اکیلا لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ اپنے دادا کے جنازے کے وقت لی گئی ایک آخری تصویر میں نقیب کا کمسن بیٹا تابوت کے ساتھ سر لگائے میت کا چہرہ دیکھ رہا ہے اور اس کی آنسوؤں بھری آنکھوں میں کچھ سوال ہیں جن کا جواب اسے شاید کبھی نہ مل پائے۔ دوسری جانب راوانوار کا موقف ہے کہ جعلی مقابلوں کے حوالے سے اس پر لگایا جانے والا الزام بے بنیاد ہے اور اگر وہ مجرم ہوا تو ٹرائل میں ثابت ہو جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button