حکومت نے 22 کروڑ پاکستانی گدھوں کو الٹی دولتی کیسے ماری؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا یے کہ وفاقی حکومت نے جو عوام دشمن بجٹ پیش کیا ہے وہ 22 کروڑ پاکستانی عوام کو الٹی دولتی مارنے کے مترادف ہے، مانا کہ وفاقی بجٹ دراصل آئی ایم ایف کا بجٹ ہے مگر جس نڈر انداز میں اشرافیہ اور فوج کو ٹیکسوں میں رعایتیں دی گئی ہے وہ اپنی جگہ حیران کن ہے۔ عاصمہ کے بقول فوجی اور سرکاری ملازمین کے پراپرٹی بزنس کو دو چند کرنے کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں ان پر تو ائی ایم ایف نے بھی انکھیں بند رکھی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھاری ٹیکسوں کا سارا بوجھ پہلے سے پسے ہوئے غریب عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔

معاشی استحصال کی نئی شکل سول ملٹری بیوروکریسی کو پراپرٹی میں دی گئی ٹیکس چھوٹ سے واضح ہے۔ کیا یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے، کیا پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں پر بےتحاشا ٹیکس وقت کی اہم ترین ضرورت تھی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ تعداد پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔

بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ یقیناً یہ سب یونہی نہیں ہوا۔ عوام میں پہلے ہی ایک تفریق موجود ہے اور ایسے میں سول اور ملٹری ملازمین کو پراپرٹی ٹیکس میں چھوٹ ایک اور تفریق کو بڑھاوا دے گئی۔ کون نہیں جانتا کہ زمینوں کی خرید و فروخت کس ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ کیا سیاسی حکومت کو اس کے نقصانات کا اندازہ ہے یا بجٹ کے ساتھ ہی ایک اور منی بجٹ کی شُنید ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے تو بجٹ منظور کر لیا مگر کیا آئی ایم ایف بھی بجٹ منظور کرے گی؟ ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کی ناکامی کے بعد آئی ایم ایف عوام کے جذبات کی ترجمان بن جائے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ کے بعد شور مچانے والی پیپلز پارٹی ایسے رام ہوئی کہ عوام کی تسبیح بھی بھول گئی۔ بجٹ نامنظور کے راگ الاپتی پیپلز پارٹی کے ’تحفظات‘ کن مفادات میں بدل گئے یہ راز بھی اب راز نہیں ہے۔ رہی فارم 45 والی اصلی تے وکھری تحریک انصاف تو وہ محض عمران خان کی رہائی کا راگ ہی الاپتی رہی، عوام کی نمائندہ اصل اپوزیشن کا وجود ایوان میں نظر نہیں آیا۔ لیگی حکومت اپنا ووٹ بنک تو ختم کر ہی چکی ہے سو اب بطور سیاسی جماعت خودکشی پر بھی بخوشی رضامند ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس ایک بار بھی قومی اسمبلی میں نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینا پسند کیا ہے حالانکہ وہ منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ حالیہ بجٹ میں معاشی ناہمواری نے جس بھونچال کو جنم دیا ہے اس کا شاخسانہ چند عرصے میں سامنے آ سکتا ہے۔ ملک میں کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جو عوامی غم اور غصے کے اظہار کا ذریعہ بنے سو خدشہ ہے کہ کہیں یہ لاوا کسی آتش فشاں کا سبب نہ بنے۔ صورتحال یہ ہے کہ انقلاب اس وقت پاکستان کی دہلیز پر لڑکھڑاتی ٹانگوں کھڑا ہے اور کانپتے ہاتھوں دستک بھی دے رہا ہے مگر کوئہ انقلابی میسر نہیں ہیں۔ عمران خان نے درست پیش بندی کی کہ جولائی اور اگست میں کشمیر جیسی صورت حال ہو سکتی ہے شاید ان کا اشارہ  بجٹ کے بعد بڑھنے والے عوامی غم اور غصے کی جانب ہے مگر اس کے لیے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت اور راہنما کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی بیرون جیل قیادت آپس میں دست و گریبان ہے، نہ ہی کوئی نظریہ ان کے پاس ہے اور نہ ہی قیادت ایسے میں عوام کس کی طرف دیکھیں؟

لیگی حکومت اپنا ووٹ بنک تو ختم کر ہی چکی ہے سو اب بطور سیاسی جماعت خودکشی پر بھی بخوشی رضامند ہے۔ نواز شریف نہ تو ایک بار بھی بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے اور نہ ہی انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینا پسند کیا۔

اب وہ عوام کے درد میں اجلاسوں سے روٹھ کر بھی نہیں جاتے کیونکہ وہ اب خود سے بھی شاید روٹھ چکے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان کا روٹھنا بنتا بھی ہے۔

Back to top button