کیالاہورہائیکورٹ کے سپرسیڈڈجج استعفی دیں گے یا لڑیں گے ؟

لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تاریخ میں چیف جسٹس کے عہدے پر پہلی خاتون جج جسٹس عالیہ نیلم کی نامزدگی سے جہاں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے وہیں دو سینیئر ججز کی سنیارٹی متاثر ہونے سے ایک نیا تنازع بھی سر اٹھا رہا ہے اورقانونی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا سپر سیڈ ہونے والے لاہور ہائیکورٹ کے دو سینئر ججز جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس تقرری کے بعد مستعفی ہونگے یا ماضی کی طرح جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرینگے؟

خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے جسٹس مس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کیلئے نامزد کیا ہے اور 2 سینیئر ججوں بشمول قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس علی باقر نجفی کو نظرانداز کیا ہے۔

اب یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا وہ ججز اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے جن کی سنیارٹی متاثر ہوئی ہے یا مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں گے؟ یہاں کچھ لوگ عسکری ادارے کی مثال دیتے ہیں جہاں سنیارٹی متاثر ہونے کی صورت میں سینیئر عسکری افسر ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ جہاں آرمی کی مثال دی جاتی ہے وہیں اس دلیل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ کے ادارے میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے۔

تاہم ججوں کو سپر سیڈ کرکے جونیئر جج کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کرنیکی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس مولوی مشتاق کو نظرانداز کر کے جسٹس اسلم ریاض حسین کو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا اور اس کے بعد جسٹس مولوی مشتاق رخصت لے کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ چنانچہ جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو جسٹس مولوی مشتاق کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے بنچ کی سربراہی کی تھی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس فلک شیر کو نظرانداز کیا گیا اور جسٹس میاں اللہ نواز کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ جسٹس فلک شیر کا دعویٰ تھا کہ وہ سنیارٹی میں پہلے نمبر پر ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے آئینی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس میاں اللہ نواز کے بعد جسٹس فلک شیر کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس فلک شیر کو جب سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تو ان کے بعد لاہور ہائیکورٹ کی سینیئر ترین خاتون جج جسٹس فخر النساء کھوکھر کو بھی نظرانداز کیا گیا اور جسٹس افتخار حسین چودھری کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔جو 5سال تک اس عہدے پر فائز رہے، تاہم ماضی میں نظر انداز ہونیوالے ججوں کی جانب سے مستعفی ہونیکی روایت نہیں ملتی ہے ۔

خیال رہے کہ جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر ہونے والی خواتین میں سے پہلی جج ہیں جو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گی۔ ان سے پہلے جسٹس فخر النساء کھوکھر لاہور ہائیکورٹ کی سینیئر ترین جج ہونے کے باوجود چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نہیں بن سکی تھیں۔سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک بھی لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں لیکن اس سے پہلے ان کا تقرر سپریم کورٹ میں ہو گیا اور اب وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے چیف جسٹس پاکستان ہوں گی۔

لاہور ہائیکورٹ کی پہلی چیف جسٹس کی نامزدگی کے بعد جہاں وکلا اس نامزدگی کو سراہ رہے ہیں وہیں دوسری طرف اس سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ جن ججوں کی سنیارٹی متاثر ہوئی ہے وہ کیا کریں گے؟صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ نےسوال اٹھایا ہےکہ نظر انداز شدہ دونوں جج اگرقابل نہیں ہیں تو انہیں جج ہی مقرر نہیں ہونا چاہیےتھا اور اگر وہ قابل ہیں تو انہیں نظر انداز کرنیکی ٹھوس وجہ سامنے آنی چاہیے،دونوں ججوں کے پاس سپریم جوڈیشل کونسل اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنیکا حق حاصل ہےاگر جسٹس شجاعت علی خان سٹینڈ لیتے ہیں تو ایک سال میں فیصلہ آئے یا نہ آئے لیکن قوم کو پتہ چل جائیگا کہ پس پردہ سوچ کیا تھی؟

دوسری جانب کچھ وکلا کا یہ بھی خیال ہے کہ نظرانداز ہونے والے لاہور ہائیکورٹ کے سینیئر ججوں کی اپنی صوابدید ہو گی کہ وہ بطور جج خدمات جاری رکھتے ہیں یا نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سنیارٹی میں پہلے نمبر پر آنے والے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان کے عہدے کی مدت 22 اپریل 2026 تک ہے جبکہ سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر آنے والے جسٹس علی باقر نجفی 14 ستمبر 2025 کو عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔

Back to top button