کیا شیخ حسینہ واجد کی حکومت امریکی CIA نے سازش سے ختم کرائی ؟

20 برس تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہنے والی شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے اچانک خاتمے کی ایک وجہ امریکہ کی ناراضگی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے حالیہ سالوں میں چین سے مثالی تعلقات بہتر بنا لیے تھے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ انکی حکومت نے چین کے ”ون بیلٹ-ون روڈ“ والے منصوبے کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش کو چین کے ساتھ برما کے زمینی راستوں کے ذریعے ملانے والے پراجیکٹ پر تندہی سے کام شروع کر رکھا تھا۔ لہازا امریکہ شیخ حسینہ واجد سے ناراض ہو گیا اور سی ائی اے کے ذریعے ان کی حکومت ختم کروا دی تا کہ بنگلہ دیش میں ایک ”کٹھ پتلی حکومت“ مسلط کی جا سکے۔

لمبا عرصہ ریاست کے لیے عوامی غضب کو دبانا ممکن کیوں نہیں ہوتا ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنے تازہ تجزیے میں بھارتی میڈیا کے اس پروپگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی بیٹی سے بظاہر زبردستی لیا گیااستعفیٰ میرے لئے حیران کن خبر نہیں۔ رواں برس جنوری میں ہوئے عام انتخابات سے قبل حسینہ واجد یہ طے کر چکی تھیں کہ انہیں اپنی جماعت عوامی لیگ کو مسلسل تیسری بار بھی ہر صورت برسر اقتدار لانا ہے۔ اپنی مخالف جماعتوں کو وہ 2019 سے ریاستی جبر کا ہرہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے دیوار سے لگا چکی تھیں۔ ان کے فسطائی اندازِ حکومت پر نام نہاد عالمی ضمیر نے توجہ دینے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بنگلہ دیش کو بلکہ ہم جیسے ملکوں کے لئے قابل تقلید ماڈل بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ من پسندیدہ اعدادوشمار کو دہراتے ہوئے ہمیں سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ بنگلہ دیش نے شاندار مگر قابل عمل منصوبے کے ذریعے اپنی آبادی کی بڑھوتی پر قابو پایا۔ افزائش آبادی کے مسئلے پر قابو پالینے کے بعد عورتوں کو معیشت سنوارنے کے عمل میں متحرک کیا۔ عورتیں اور مرد مل کر ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے لگے تو بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں بھارت کے مقابلے میں بھی شرح نمو کے حوالے سے خوش حالی کی جانب دوڑتا نظر آنا شروع ہو گیا۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ حسینہ واجد 2009ء سے اقتدار میں تھی۔ اس دوران وہ ان لوگوں کو چن چن کر عبرت کا نشان بناتی رہی جنہوں نے بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی“ کے دوران پاکستان کو یکجارکھنے کی کوشش کی تھی یا بنگلہ دیش کے آزاد ملک بن جانے کے بعد ان کے والد کو قتل کیا اور بعدازاں شیخ مجیب کی بنائی عوامی لیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن امریکہ اور یورپ کی حکومتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا کو یہ سب دکھائی نہ دیا۔ حسینہ کے فسطائی ہتھکنڈے ”ایک پسماندہ ملک کو ترقی یافتہ“ بنانے کے تناظر میں تقر یباََ جائز وواجب تصور کرتے ہوئے نظرانداز کردیے گئے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ گزشتہ برس کے مئی سے امریکی وزارت خارجہ نے جب حسینہ واجد کے اندازِ حکومت پر تحفظات کا کھلے عام اظہار شروع کردیا تو میرا ماتھا بھی ٹنکا تھا۔ لیکن میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو بنگلہ دیشی جمہوریت کی ”فکر“ اچانک کیوں لاحق ہوگئی ہے۔ اس دوران میڈیا میں یہ کہانی سامنے آئی کہ امریکہ صاحب بہادر حسینہ واجد کے چین دوست رویے سے ناخوش ہے۔ ہمارے سی پیک کی طرح حسینہ واجد نے بھی چینی حکومت کے ”ون بیلٹ-ون روڈ“ والے منصوبے کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش کو چین کے ساتھ برما کے زمینی راستوں کے ذریعے ملانے والے ایک پراجیکٹ پر کام شروع کر رکھا تھا، اسلیے امریکہ حسینہ واجد سے ناراض ہو گیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حسینہ واجد نے بھی اس سازشی کہانی کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نام لیے بغیر ”ایک سفید فام مسیحی ملک“ یعنی امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹاگانگ کے قریب موجود ایک جزیرے کو ”آزاد مسیحی ملک“ بنانا چاہ رہا ہے۔ لیکن حسینہ واجد امریکہ کو ایک بنگلہ دیشی جزیرے کو ”جداگانہ مسیحی مملکت“ کی سازش میں مصروف بتاتے ہوئے یہ سادہ حقیقت تسلیم کرنے سے قاصر رہیں کہ اقتدار میں 15 برس مکمل کرنے کے بعد وہ اور انکی حکومت ٹھگوں کے ایک ٹولے کی طرح اپنے ملک پر قابض ہے جو بنگلہ دیش کی اعدادوشمار کے حوالے سے نظر آتی اقتصادی خوش حالی کو عوام کے وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کو تیار نہیں۔ بنگلہ دیش کی قابل رشک نظر آتی اقتصادی ترقی کی اصل کلید بنیادی طورپر ٹیکسٹائل کے وہ کارخانے تھے جہاں عورتوں کی ایک کثیر تعداد خرکار کیمپوں میں مشقت کرنے والے افراد کی طرح خون پسینہ ایک کرتے ہوئے امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں بکنے والی مصنوعات تیار کرتی تھیں۔ کرونا کی وبا نے بنگلہ دیش میں تیار ہوئی سستی مصنوعات کی طلب بھی عالمی منڈی میں کم کردی۔ روس،یوکرین اور اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں جاری جنگوں نے مذکورہ طلب کو بالآخر جامد کر دیا۔ ان جنگوں کی وجہ سے ابھری مہنگائی کی لہر کاحسینہ کی حکومت کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ رواں برس کے ابتدائی مہینے میں ہوئے الیکشن میں بدترین دھاندلی کے ذریعے اقتدار کو مزید 5 برس تک قائم رکھنے کو ڈٹ گئیں۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حسینہ کی احمقانہ اور بے رحمانہ ضد نے طلبا تحریک کو ہوا دی جس کا بنیادی نکتہ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کو یقینی بنانا تھا۔ اس سادہ نکتے کو تسلیم کرنے کے بجائے حسینہ واجد نے بدترین ریاستی جبر کے استعمال کے ذریعے طلبا تحریک کو دبانا چاہا۔ لیکن ریاستی وحشت بالآخر عوامی طاقت کے روبرو ڈھیر ہو گئی۔ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف چلائی تحریک کے اسباب ہر حوالے سے بنیادی طور پر اقتصادی اور رزق کمانے کے وسائل تک محدود ہیں۔ مگر بھارتی میڈیا میں ”معتبر اور سیانے“ صحافی اور تجزیہ کار شمار بھی یہ کہابی پھیلانے میں مصروف ہیں کہ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ درحقیقت امریکہ نے سی آئی اے کو متحرک کر کے ذریعے الٹا ہے جس کا بنیادی مقصد بنگلہ دیش میں ایک ”کٹھ پتلی حکومت“ مسلط کرنے کے بعد اسے بھارت پر دباﺅ بڑھانے کے لئے استعمال کرنا ہے۔

Back to top button