ٹرین حملہ : بلوچ علیحدگی پسندوں کی مشترکہ جارحانہ حکمتِ عملی

بلوچستان میں درۂ بولان کے قریب جعفر ایکسپریس کو حملے کے بعد ہائی جیک کرنے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے عمل کو سیکیورٹی ماہرین بلوچ عسکریت پسندوں کی مشترکہ اور جارحانہ حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ایک مسافر ٹرین پر بزدلانہ حملے نے گیم کے رولز تبدیل کر دیے ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت نہیں کی۔
یاد رہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک اہم دھڑے نے منگل کی دوپہر مسافر ٹرین پر حملہ کر کے اسے ایک سرنگ کے قریب روک کر 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یہ ٹرین کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی جسے پنجاب کے اہم شہروں لاہور اور راولپنڈی سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچنا تھا۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ بشیر زیب کی قیادت میں فعال ‘بی ایل اے’ کے دھڑے نے کیا ہے۔ بشیر زیب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ٹرین میں سوار اُن مسافروں کو نشانہ بنایا ہے جو مختلف سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ تھے۔
بی ایل اے نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے بلوچستان کے باسی سیاسی قیدیوں، جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد اور مزاحمتی کارکنان کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ بلوچ عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کی جنگی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے بقول ان حملوں میں شہری گوریلا جنگ کی جھلک بھی زیادہ نمایاں ہو رہی ہے جو پہلے زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود تھی۔ انکے مطابق عسکریت پسند اب دور دراز پہاڑی علاقوں سے نکل کر بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اب وہ ٹرین ہائی جیک کرنے جیسے فلمی حملے بھی کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی ایک بلوچ عسکریت پسند گروہ نے بلوچستان کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی شاہراہ پر مسافر بسوں کو روک کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 مسافروں کو شناخت کر کے قتل کر دیا تھا۔کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں وقت کے ساتھ اپنے حملوں کی شدت اور نوعیت میں تبدیلی لاتی رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے ٹرین کی پٹریوں یا موبائل ٹاورز کو دھماکے سے اڑانے جیسے حملوں تک محدود تھیں لیکن اب ان کے حملے زیادہ منظم اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بی ایل اے کے حملوں میں خودکش یا فدائین حملوں کا بھی استعمال تیزی سے بڑھ رہاہے جن میں خواتین کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حالیہ واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ٹرین پر قبضے اور کئی کئی گھنٹوں تک قصبوں اور سڑکوں کو کنٹرول میں رکھنے کے واقعات کا مقصد دراصل ریاست کے ردِعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے سے 10 روز قبل بلوچ راجی آجوئی سنگر یا براس نامی بلوچ علیحدگی پسند اتحاد نے ریاستی اداروں اور چینی مفادات کے خلاف حملوں میں اور بھی شدت لانے کا اعلان کیا تھا۔بلوچستان میں فعال مسلح دہشت پسند تنظیموں نے جولائی 2020 میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے ‘براس’ نامی اتحاد قائم کیا تھا۔ اس اتحاد میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بلوچستان لبریشن آرمی، گلزار امام عرف شنبے کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔ بعد ازاں سندھ کی ایک مسلح تنظیم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے بھی اس اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
رواں برس دو مارچ نے اپنے ایک اعلامیے میں اتحاد میں شامل تنظیموں کے ایک اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر تنظیم کی انفرادی اور منتشر کارروائیوں کو مربوط اور منظم انداز میں یکجا کر کے مشترکہ حملے کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی، تاکہ زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
خیال رہے کہ اس اعلامیے میں گلزار امام کی ‘بی این اے’ کا نام براس کی اتحادی تنظیموں میں شامل نہیں تھا۔ گلزار امام کو کچھ عرصہ قبل ترکیہ سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ان کے نائب کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں کے اتحاد اور تنظیمی ڈھانچے میں اندرونی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو شورش کی مجموعی سمت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ ‘براس’ میں شامل تما بکوچ عسکریت پسند تنظیمیں ایک کامیاب عسکری اتحاد کے بعد ممکنہ طور پر مکمل انضمام کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ انضمام عملی شکل اختیار کر گیا تو یہ بلوچستان میں جاری شورش کے لیے ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ اس سے بلوچ عسکریت پسندوں کو ایک زیادہ منظم عسکری پلیٹ فارم حاصل ہو جائے گا۔
ایس ایس جی کے کمانڈوز نے BLA کے خودکش حملہ آوروں کو کیسے مارا ؟
ماہرین کا خیال ہے کہ بلوچ عسکری گروہوں کے ممکنہ انضمام کا تصور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حکمتِ عملی سے متاثر ہو سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی نےمتعدد ناراض اور آزاد گروہوں کو اپنے ساتھ شامل کیا جبکہ القاعدہ برِصغیر اور لشکرِ جھنگوی سمیت کئی دیگر تنظیموں کو بھی ضم کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔
بلوچستان کے عسکری اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک کی تاریخ باہمی اختلافات اور قیادت کے تنازعات سے بھری ہوئی ہے جو کسی بھی مکمل انضمام کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ تاہم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اندرونی معاملات سے باخبر مکران کے ایک سینئر سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ بلوچ مزاحمتی گروہوں، طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں قیادت کے مسئلے کی وجہ سے ہمیشہ ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ رہتا ہے اور اسی پس منظر میں ان عسکریت پسند گروہوں کا مکمل انضمام آسان نہیں ہوگا۔