اثاثہ جات برآمدگی یونٹ کو جج کے خلاف انکوائری کا اختیارکس نے دیا؟

سپریم کورٹ نے اثاثہ جات برآمدگی یونٹ کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اثاثہ جات برآمدی یونٹ کو کس نے دیا، کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا؟پاکستان واحد ملک ہے جہاں جج کیخلاف ریفرنس پر کارروائی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اثاثہ جات برآمدی یونٹ اے آر یو کے دائرہ اختیارسمیت 2 قانونی نکات اٹھادئیے۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل، درخواست گزار کے وکیل بلال منٹو و دیگر پیش ہوئے۔
اس موقع پر بلال منٹو نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 209 میں ترمیم کی گئی، آئینی ترمیم میں ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیارات کو نہیں چھیڑا گیا، آرٹیکل 209 کے تحت صدر کا کردار آزادانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو آرٹیکل 209 میں وزیراعظم کے مشورے کا پابند نہیں کیا جا سکتا، 18ویں ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو آزاد کر دیا گیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں جج کے خلاف ریفرنس پر کارروائی ہوتی ہے۔
اس پر بلال منٹو نے کہا کہ حکومت صرف صدر کو جج کے خلاف معلومات فراہم کرسکتی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟ اگر کوئی جج کےخلاف درخواست حکومت کو دینا چاہے تو کیا ہوگا؟ ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کوئی سیاسی جماعت بھی صدر سے ریفرنس کے لیے رجوع کر سکتی ہے؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ صدر مملکت کو سیاسی وابستگی سے بالاتر اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، صدر مملکت غیر جانبدار نہیں ہوگا تو سیاسی قوت کے دباؤ کا شکار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلوں پر ججز کو ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے جبکہ بدنیتی سے دائر ریفرنس کے بھی نتائج ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے متعلق رپورٹ جمع کروائی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اپنے گوشوارے کراچی میں فائل کررہی ہوں، وہ کہتی ہیں کہ جب آمدن قابل ٹیکس نہیں رہی تب ریٹرن فائل نہیں کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد سے ریکارڈ کراچی منتقل کرنے کی درخواست کی ہے، ایف بی آر کے مطابق جسٹس قاضی کی اہلیہ آن لائن سہولت کے ذریعے کہیں سے بھی ریٹرن فائل کرسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے 2012، 2013 میں آن لائن ریٹرن فائل کی، ایف بی آر کے مطابق اہلیہ جسٹس عیسیٰ کو 2015 کے بعد ریٹرن نہ جمع کروانے پر نوٹس کیے گئے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے ریٹرن کا ریکارڈ کراچی بھجوادیا ہے جبکہ انہیں بھی ایف بی آر کی رپورٹ سے آگا کردیا ہے۔
اس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ آپ دلائل کب دیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے مقدمے کی تیاری کے لیے عدالت سے وقت مانگنے کی استدعا کی اور کہا کہ عدالت کے ہر سوال کا جواب دوں گا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ پہلا نکتہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اثاثہ جات برآمدی یونٹ کو کس نے دیا، کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا۔ جسٹس عمرعطابندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ ان دونوں قانونی نکات کے جواب بہت اہم ہے۔ بعدا زاں عدالت نے مذکورہ معاملے کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کررہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button