پی ایم ڈی سی کیس : سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) سے متعلق عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔
ہائی کورٹ میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی عدم بحالی پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جس دوران سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فوری عدالت طلب کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد آدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں، اس کے ساتھ ہی عدالت نے علاقہ مجسٹریٹ کو بھی آدھے گھنٹے میں عدالت میں طلب کرلیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی عمارت کو کس کے حکم پر سیل کیا گیا تھا؟
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایم ڈی سی اور اس کے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، ملازمین نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا گیا ہے اور ملازمین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت صحت نے عمارت سیل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انتظامیہ نے عمارت سیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر وزارت صحت نے پی ایم ڈی سی کی عمارت کو خود تالے لگائے۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت پاکستان اس طرح کام کرے گی تو لوگ پتھر ماریں گے، حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ادارہ غیر ضروری ہے تو پارلیمنٹ میں جائیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں مزید کہا کہ وزارت صحت کو اندازہ نہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں، جو وزارت کیماڑی گیس سے ہلاکتوں کا اندازہ نہیں لگا سکی کیا وہ کورونا سے لڑے گی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومتی امور کسی طریقہ کار کے تحت چلائیں، اس طریقہ کار سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہورہا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارے کے ساتھ حکومت یہ کرے گی تو ملک تباہ ہوجائے گا، کیا وفاقی حکومت کو سمجھانے والا کوئی نہیں؟ اپنے ریمارکس میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ رویہ ہے جس سے ادارے تباہ ہوتے ہیں، حکومتیں ایسی نہیں چلتی کام کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ وزارت صحت عمارت سیل کرنے کی کیا وجہ بتا سکتی ہے؟ ایک سرکاری ملازم کو گھر بھیجنا مشکل ہے آپ نے ادارہ گھر بھیج دیا۔ اپنے ریمارکس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کل کو حکومت کو جج اور وکیل پسند نہیں آئیں گے تو کیا انہیں گھر بھیج دیں گے؟ کیا ملازمین کو کہیں کہ وہ تالے توڑ کر پی ایم ڈی سی بیٹھ جائیں؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کی کوئی حیثیت نہیں پارلیمنٹ نے اپنا کام کرنا ہے، سیکریٹری صحت کو کہیں اپنی عقل استعمال کریں کسی کے کہنے پر نہ چلیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے جیسا نوٹی فکیشن لکھا ایسا تو پٹواری بھی نہیں کرتے، ہر ادارے کے باہر ایسے نوٹی فکیشن لگا دیں پھر پورٹل پر لوگوں کی شکایات موصول کریں، پھر لوگوں کو بتانا شروع کردیں کہ پورٹل پر اتنی شکایتیں حل کردیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملازمین بحال ہوچکے ہیں ان سے کام کروائیں، جس سیکریٹری نے سلطان راہی کے روپ میں تالا لگایا انہوں نے درست نہیں کیا۔ اپنے ریمارکس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پی ایم ڈی سے متعلق آرڈیننس عدالتی فیصلے کے بعد ختم ہوچکا، ملازمین کے حقوق محفوظ ہیں، عمارت جب تک سیل رہے گی بدنامی کا باعث بنے گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملازمین زبردستی عمارت میں داخل نہ ہوں بس یوں سمجھ لیں کہ ابھی حکومت پاکستان کو کام کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد انتظامیہ سے توقع ہے وہ کسی غیر قانونی حکومتی حکم پر عمل نہیں کرے گی۔ بعدازاں عدالت نے سیکریٹری صحت سمیت فریقین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور عمارت کو تالا لگانے والے افسران سے 25 مارچ کو جواب طلب کردیا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے قیام اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کرنے کا صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار دے کر پی ایم ڈی سی ملازمین کو بحال کیا تھا۔ یاد رہے کہ 20 اکتوبر کو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا تھا جس کے نتیجے میں پی ایم سی کے نام سے نئے ادارے کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ بعدازاں 28 اکتوبر کو پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کونسل کو تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button