کوئی پنجابی میں بات کرے تو ‘جہالت’ کا ٹیگ کیوں؟

ہر شخص کےلیے اس کی مادری زبان قابلِ فخر ہوتی ہے اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زبان زندہ رہے۔ لیکن حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پنجابی زبان سے متعلق ایک بحث چھڑ گئی ہے۔
وائرل ہونے والی ویڈیو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موبائل سے بنائی گئی ہے جس میں ایک خاتون نے پولیس چوکی پر روکے جانے کے بعد پولیس اہلکار کو اُن سے پنجابی میں مخاطب ہونے پر بُرا بھلا کہا۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد ٹوئٹر پر یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا پنجابی زبان میں کسی کو مخاطب کرنا کوئی بُری بات ہے کہ سماجی طور پر اسے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی کے ساتھ بہت سے سوال بھی سامنے آئے جیسا کہ کیا پنجابی زبان کے بولنے والے خود اسے بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں؟ کیا پنجابی زبان معدومی کا شکار ہو رہی ہے؟ اور اگر کوئی پنجابی میں کسی کو مُخاطب کرے تو اُس پر ’جاہل‘ یا کم پڑھے لکھے کا ٹیگ کیوں لگا دیا جاتا ہے۔
ٹوئٹر پر ڈارون خان نامی ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’سب کو کسی بھی زبان میں بات کرنے کی آزادی ہے۔ کسی زبان کو منفی رویے سے جوڑنا غلط ہے، خاص طور پر ایسی زبان جو ادبی لحاظ سے بہت زرخیز ہو۔‘
پھر ملک عباس نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے اس ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجابی زبان ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہونے کی ایک علامت بن چکی ہے، اور پنجابی بولنے والوں کو ‘جاہل’ کہا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پنجابی والدین اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے روکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس والدین کو اپنے بچوں کو اچھے معاشرتی اقدار سکھانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘
یہاں معاملہ رُکا نہیں، رابعہ انعم بھی اس بحث میں شامل ہوئیں۔ اُنہوں نے لکھ ڈالا کہ پنجابی زبان تو شہری علاقوں سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور ان علاقوں کے اسکولوں کے اسی فیصد بچے تو پنجابی زبان کا ایک بھی مکمل جُملہ نہیں بول پاتے۔ اساتذہ اور والدین بچوں کو مادری زبان کے استعمال کو عجیب تصور کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو سے شروع ہونے والی پنجابی زبان پر بحث پاکستان تک ہی نہ رکی، سرحد پار سے بھی کُچھ صارف میں میں شامل ہوئے اور بحث میں رنگ پڑا سیاست کا۔ کینیڈا میں مقیم انڈین روی نے لکھا ‘پنجابی پاکستانی حکمرانوں نے عشروں پنجابی زبان کی تضحیک کی ہے اور اسے ہمیشہ جاہلوں کی زبان کے طور پر پیش کیا ہے’۔ جب کہ انڈین پنجاب میں تمام سرکاری دفاتر حتیٰ کہ پارلیمان میں بھی نہ صرف پنجابی بولی جاتی ہے بلکہ اسے دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔
ساتھ ہی انڈیا سے ہی پنکھج کوشل نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ آپ (پاکستانی عوام کو) کو قائد اعظم محمد علی جناح کا شُکر گُزار ہونا چاہیے جنہوں نے انگریزی زبان میں کہا تھا کہ اب ‘ہر جانب اُردو ہی ہوگی’۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور دیگر تمام زبانوں کی قدر میں کمی ہی ہوگئی ہے۔
انہوں نے وائرل ہونے والی ویڈیو کے بارے میں کہا کہ ‘کسی حد تک تو خاتون کا رویہ درست تھا، اب جس ماحول میں وہ پروان چڑھیں اُن کے والدین نے جیسی اُن کی تربیت کی اُنہوں نے ویسا ہی ہونا تھا’ اس میں ایسی تعجب کی کیا بات ہے؟
بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button