عمر شریف کی بیٹی حرا عمرکا آپریشن آزاد کشمیر میں کیوں ہوا؟

پاکستان میں اعضاء کی پیوند کاری سے متعلق سخت قوانین اور غیر قانونی طور پر اس کام میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ دھندا روز بروز فروغ پارہا ہے حالانکہ کمزور ریاستی چیک اینڈ بیلنس کی وجہ سے ہر برس ہزاروں مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ ترین واقعہ پاکستان کے معروف کامیڈین عمر شریف کی صاحبزادی کے ساتھ پیش آیا ہے جو ایک قصاب نما ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ کر اب اس دنیا میں نہیں رہیں اور منوں مٹی تلے جا سوئی ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ دو لاکھ اموات صرف اس لیے ہو جاتی ہیں کہ ان مریضوں کو جگر، گردوں اور دیگر اعضا کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم محض چند سو ڈونرز ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنا ایک گردہ یا جگر کا ایک ٹکڑا اپنے پیاروں کے لیے عطیہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی طور پر ٹرانسپلانٹ کا دھندہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز مریضوں کی اموات کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں، 34 سالہ حرا عمر شریف کی موت بھی اسی بے ضابطگی کا شاخسانہ ہے۔
عمر شریف کی بیٹی کی ہلاکت سے ملک میں اعضا کی غیرقانونی پیوند کاری کا معاملہ ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ حرا دراصل گردے کی غیرقانونی پیوندکاری کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے لاہور میں وفات پا گئی تھیں۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ جو گردہ خرید کر حرا کو لگایا گیا وہ جسم نے قبول نہیں کیا اور آپریشن کے بعد حالات اتنے خراب ہوگئے کہ وہ ڈائلسز کے بھی قابل نہ رہیں اور انتقال کر گیئں۔ حرا کی وفات کے بعد ان کے بھائی جواد شریف کی جانب سے ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی میں ایک درخواست دی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی بہن کی سرجری کے لیے لاہور میں فواد ممتاز نامی ڈاکٹر کو 34 لاکھ روپے دئیے۔ جس کے بعد آزاد کشمیر میں ان کی بہن کا آپریشن کیا۔
یاد رہے کہ آزاد کشمیر میں یہ غیر قانونی آپریشن کرنے کا مقصد حکومت پاکستان کے نافذ کردہ قوانین کی پہنچ سے باہر جانا تھا۔ یہ آپریشن کرنے والا قصاب نما ڈاکٹر فواد ممتاز اس سے پہلے بھی کئی معصوم افراد کو بھاری رقم لے کر موت کے گھاٹ اتار چکا تھا لہذا اس نے قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے اب یہ کام آزاد کشمیر کے ایک کلینک میں شروع کر رکھا ہے۔
آپریشن کے ایک ہفتے بعد ہی حرا کی حالت بگڑ گئی۔ انہیں لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں جس کے بعد ڈاکٹر فواد ممتاز مفرور ہوگیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں انسانی اعضا کی پیوند کاری کے ایکٹ مجریہ 2010 کے تحت صرف قریبی رشتے دار یا ان کی عدم موجودگی میں دور کے رشتے دار ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کی اجازت سے اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔ اتھارٹی یہ اطمینان کرنے کے بعد اجازت دیتی ہے کہ آیا یہ عطیہ رضاکارانہ، بلا جبر و بلا معاوضہ دیا جا رہا ہے یا نہیں جبکہ محض پیسے سے کسی کے اعضا خریدنے کی سزا دس برس قید ہے۔ مگر ان غیر قانونی اعضا کی پیوند کاری کرنے والے ڈاکٹر یا نیٹ ورک کو نکیل نہیں ڈالی جاسکی۔
2013 سے 2018 کے درمیان لاہور میں انسانی اعضا کی تجارت میں ملوث ہونے کے شبے میں 63 لوگ گرفتار ہوئے لیکن صرف دو کے خلاف چالان پیش کیا جا سکا۔ حرا عمر شریف کو انفیکٹڈ گردہ لگا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والا ڈاکٹر فواد ممتاز دو سال جیل کاٹنے کے باوجود اس مذموم کام میں مصروف رہا اور اب بھی قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی پہنچ سے باہر ہے۔
انسانی اعصا کی قانونی پیوند کاری کا ایکٹ مجریہ دو ہزار دس کس قدر مؤثر ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر 2016 کی ایک تفصیلی تحقیقی رپورٹ کے مطابق امیر مریضوں کے لیے غریب ترین افراد کے گردے ایک سے دو لاکھ کے درمیان خریدے جاتے ہیں۔ اور ان کے ٹرانسپلانٹ کے عوض امیر مریض سے 30 سے 60 لاکھ روپے تک وصول ہوتے ہیں۔ یہ پیسے ہسپتال یا پرائیویٹ کلینک، سرجن، دلال یا سرکاری اہلکاروں کے درمیان بٹ جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مجبور اور غریب ڈونرز کا تعلق 2000 سے 2016 تک کے سروے کے مطابق وسطی پنجاب کے علاقے کوٹ مومن، بھیرہ، سرگودھا وغیرہ سے تھا۔
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گردہ ڈونرز میں سے ستر فیصد جبری مشقت کے شکار اور قرض میں بندھے بھٹہ مزدور و کسان ہوتے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ان پڑھ ہیں۔ گردہ نکالنے سے پہلے مجبور ڈونر سے ایک سٹامپ پیپر پر انگوٹھا لگوایا جاتا ہے جس میں مریض حلفیہ تسلیم کر رہا ہوتا ہے کہ میں اپنے ناکارہ گردے کا آپریشن کروا رہا ہوں۔
ذرائع کے مطابق اب سے چند برس پہلے تک پنڈی اسلام آباد اور لاہور میں انسانی اعضا کی غیرقانونی پیوند کاری کا کام آسانی سے ہو جاتا تھا مگر کرپشن کے ریٹس اور کرپٹ افراد پر دباؤ بڑھنے کے سبب یہ کام پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر منتقل کر دیا گیا جو پاکستان میں لاگو اعضا کی پیوند کاری کے ایکٹ کے دائرے سے باہر ہے۔ عمر شریف کی بیٹی کا آپریشن بھی کشمیر کی حدود میں ہوا اور پھر اسے لاہور میں رائے ونڈ کے ایک نجی ہسپتال میں منقتل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہو گیا۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مروجہ قوانین کے تحت اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف مل سکتا ہے؟ شاید نہیں کیونکہ عدالت تو اس سارے مسئلے کو قانونی عینک سے ہی دیکھے گی اور بیشتر کیسز میں ڈونر سے لے کر مریض اور سرجن سب کے سب قانون کے دائرے سے باہر نظر آ رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button