فوجی قیادت نے پی ٹی آئی کا مذاکراتی غبارہ کیسے پنکچر کیا؟

گذشتہ چند ہفتوں سے ملکی سیاسی منظرنامے پر پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان ممکنہ مذاکرات کی چہ مگوئیاں جاری ہیں اور پی ٹی آئی متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بجائے ’طاقتور حلقوں‘ سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔ تاہم منگل کے روز اپنی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے پی ٹی آئی کو ’اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہونے والے انتشاری ٹولے‘ سے تشبیہ دے کر پی ٹی آئی اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان حائل فاصلوں کو واضح کر دیا ہے اور واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ریاست سے معافی مانگنے تک اس شرپسند ٹولے سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش پر فل سٹاپ لگ گیا ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پیش کردہ حقائق کو چیلنج کرتے ہوئے انھیں جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ ترجمان تحریک انصاف روف حسن کا کہنا ہے کہ’نو مئی کے بعد سے ہم جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔۔۔ وقت آگیا ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد پی ٹی آئی کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کی بجائے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے تاکہ قوم کو پتا چلے کون مجرم ہے۔‘

فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلیم صافی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نو مئی کو جتنا ہلکا لے رہی ہے فوج اسے اتنا ہی سنجیدہ لے رہی ہے، نومئی کو جس طرح دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا گیا کوئی ریاست اسے قبول نہیں کرسکتی، پی ٹی آئی نو مئی کو فوج کا بنایا ہوا منصوبہ قرار دے گی تو فوج بھی اسے نہیں چھوڑے گی، ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہئے اور ماں بچوں کی بہت سی غلطیوں سے درگزر کرلیتی ہے، پی ٹی آئی قیادت کو نو مئی پر معذرت کرے جبکہ فوج ان واقعات میں پکڑے گئے لوگوں خصوصاً خواتین کیلئے عام معافی کا اعلان کردے۔

تاہم مبصرین کے مطابق پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نو مئی کے تقریباً ایک سال بعد بھی فوج تحریک انصاف کے ساتھ کسی نرمی کے حق میں نہیں ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ فوج نے بحیثیت ادارہ اب تک اس حوالے سے کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور ’آج بھی اسٹیبلشمنٹ 10 مئی والے موقف پر قائم ہے۔‘پریس کانفرنس میں نو مئی کے حوالے سے فوج نے اصولی موقف دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے نو مئی پر سخت موقف کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو نہ صرف خود پر حملہ بلکہ ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی سمجھتے ہیں۔پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک ہے اور آج کی پریس کانفرنس نے اسے مزید واضح کیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے 2014 کے دھرنے سمیت دیگر معاملات پر جوڈیشل کمیشن بنانےبارے سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ بالکل ان کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے اور اس میں 2014 کے دھرنے کے کرداروں سمیت 2016 میں کے پی حکومت کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنے کی تحقیقات کو بھی شامل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ فوج نے بھی اس سے سبق سیکھ لیا ہے اور وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے انھیں سدھارنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف ایک مقبول جماعت ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف ’اپنی مقبولیت اور عوامی طاقت کا استعمال ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہیں کر رہی۔۔۔ انھوں نے مقبولیت سے زیادہ قبولیت کو اہمیت دی ہے۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسٹیبشلمنٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے اور وہ اس کی وجہ سے ہی اقتدار سے محروم ہوئے ہیں۔ان کے نزدیک ان کی جماعت حالیہ الیکشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہی ہاری ہے۔ تاہم پاک فوج  ماضی میں بارہا سیاست میں مداخلت کے الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔اس پس منظر کے باوجود تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک ہونے پر ہی تحریک انصاف کو سازگار ماحول مل سکے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں انھیں جو کچھ ملنا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ سے ہی ملنا ہے۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی فریق سمجھتے ہیں۔‘ تاہم عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔‘

Related Articles

Back to top button