کیا اب فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بن پائیں گے؟


فیض آباد دھرنا کیس میں ایک جرات مندانہ فیصلہ دے کر پاکستانی ریاستی اداروں کے غیض و غضب کا نشانہ بننے والے جسٹس فائز عیسی نے ایک لمبی قانونی جنگ کے بعد ملک کی تقدیر سے کھلواڑ کرنے والی خفیہ قوتوں کو پچھاڑ دیا اور صدارتی ریفرنس میں خود پر لگائے گئے تمام الزامات سے بری ہو گئے۔ یوں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی سنیارٹی لسٹ کے مطابق آج سے تین برس بعد ستمبر 2023 میں قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر صدر عارف علوی کے دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں محمد علی جناح کے قابل اعتماد ساتھی اور تحریک پاکستان کے ھراول دستے میں شامل قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ فائز عیسی کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔
فائز عیسی 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور پھر مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔3نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ آپ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ فیصلہ دینے سے قبل اس کے ہر لفظ کو محتاط انداز میں تحریر کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد مقدمات میں تاریخی ریمارکس دیئے. تاہم ان کی مشکلات کا آغاز تب ہوا جب انہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ قبول کرتے ہوئے اس کی مرضی سے فیصلے دینے سے انکار کیا۔
2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کے دھرنے پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نمٹاتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ 22نومبر 2018 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے اس کیس کے فیصلے کو محفوظ کیا تھا اور 21 نومبر 2017 کو لیے گئے ازخود نوٹس کے تحت جاری سماعت کو اٹارنی جنرل، میڈیا ریگولیٹر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر شدید تنقید کے بعد بند کردیا گیا تھا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جبکہ وزارت دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل پر بھی تبصرہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ فوج کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے دھڑے یا پھر ایک سیاسی شخص کی حمایت نہ کرے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ان معاملات میں ملوث ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ،ایک سیکیورٹی ایجنسی کو ایسے معاملات میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، اس معاملے کو بھی ختم یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فیض آباد دھرنا کیس میں دیئے گئے فیصلے پر اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب بار کونسل کو آگے لگا لیا جس نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف مظاہرے شروع کردیے اور مطالبہ کیا تھا کہ عدالتی فیصلے میں مسلح افواج اور ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے خلاف تنقید پر انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔
پنجاب بار کونسل کی جانب سے قرار داد پاس کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے فروری 2019 میں فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بغیر ثبوتوں کے مسلح افواج کی تضحیک کی اور اس کا ایک ’بدمعاش‘ ایجنسی جیسا سنگین تصور اُبھارا، جو بھارت، اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور پاکستان کے دیگر دشمنوں کا بیانیہ ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنانے کے بعد سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے اور اسی مقصد کے تحت ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ تاہم فائز عیسی نے برے ترین حالات کے باوجود ڈٹ کر اس ریفرنس کا سامنا کیا اور خود پر لگائے جانے والے تمام الزامات کو جھوٹا ثابت کر کے قانون اور عوام کی نظروں میں سرخرو ٹھہرے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک سیمینار میں تقریر کے دوران کہنا تھا کہ آئین پاکستان کا احترام ہر فرد پر لازم ہے، کوئی بھی طاقت آئین کو معطل نہیں کر سکتی ، یہ آئین کے مقصد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، آئین کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ کوئی بھی اسے طاقت سے یا دیگر طریقوں سے معطل کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔ ان کے اسی موقف کی وجہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان سے خائف ہے اور نہیں چاہتی کہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جائیں اور اعلی عدلیہ کو آزاد کر دیں۔ یاد رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی سنیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ 18 ستمبر 2023 کو پاکستان کے چیف جسٹس بن جائیں گے اور اس عہدے پر 13 ماہ تک برقرار رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button