ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس: آصف زرداری پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس میں آصف علی زرداری پر ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیب کو فرد جرم کے لیے ویڈیو لنک انتظام کرنے کا حکم دے دیا ہے۔احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس پر حکم نامہ جاری کر دیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے کورونا اور بیماریوں کی وجہ سے عدالت میں پیش ہونے سے معذرت کی جس پر احتساب عدالت نے ویڈیو لنک کے ذریعے آصف زرداری پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے آصف زرداری کے شریک ملزم اشفاق لغاری کو بھی اشتہاری قرار دیتے ہوئے اسے مقدمے سے الگ کردیا۔
واضح رہے کہ عدالت نے آصف علی زرداری سمیت 14 ملزمان کو 4 اگست کو طلب کر رکھا ہے۔ ٹھٹہ واٹر سپلائی کیس میں نامزد دیگر ملزمان میں ندیم بھٹو اور عبدالغنی مجید شامل ہیں۔ آصف علی زرداری کو اس کے علاوہ مہنگی گاڑیوں کے حوالے سے توشہ خانہ ریفرنس کا بھی سامنا ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی بھی اس کیس میں نامزد ملزمان ہیں۔10 جولائی کو آصف علی زرداری پر پارک لین ریفرنس میں فرد جرم عائد کی جانی تھی تاہم عدالت نے معاملہ 21 جولائی تک موخر کردیا۔آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ان کے موکل پارک لین کے ڈائریکٹر تھے تاہم انہوں نے کمپنی سے 2008 میں صدر مملکت بننے سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہوئے تمام مالیاتی قوانین کو نظر انداز کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب آصف علی زرداری کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی لازمی منظوری / ریفرنس کے بغیر اس کیس میں کارروائی نہیں کرسکتا تھا۔انہوں نے کہا ، یہ جان بوجھ کر ڈیفالٹ ہونے کا معاملہ تھا اور اسٹیٹ بینک واحد فورم تھا جو ان کے موکل کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا تھا لیکن معاملہ نیب نے اٹھالیا اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی میں اکیلے ہی اس معاملے کو آگے لے کر گیا۔
مالی قوانین کے حوالے سے انہوں نے نشاندہی کی کہ 30 اکتوبر 2009 کو جبپارتھینون پرائیویٹ لمیٹڈ نے قرضہ حاصل کیا آصف زرداری کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں تھے بلکہ وہ پارک لین کے صرف ایک شیئر ہولڈر تھے۔انہوں نے کہا کہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے آصف علی زرداری کا استعفیٰ قبول کرلیا تھا تاہم وہ اس بارے میں اس وقت سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو آگاہ نہیں کرسکا تھا۔جب جج نے استفسار کیا کہ پارتھینان جب قرض وصول کررہے تھے تو پارک لین نے اس کی جائیدادوں کو مورٹ گیج کیا تو فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ وہ ایک طرح کی شراکت میں ہیں اور سابق نے مؤخر الذکر کو تعمیراتی منصوبے کی پیش کش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک آف پاکستان کی کریڈٹ کمیٹی نے پارتھی نان کے لیے قرض کی منظوری دی تھی لیکن نیب نے ریفرنس میں این بی پی کے کسی ایک عہدیدار کو بھی شامل نہیں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس کیس میں ملزم ہوسکتے ہیں ان کو بطور استغاثہ گواہ درج کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button