عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی آئیں گے یا راجہ بشارت؟


مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بالآخر گھر بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا ہے جس پر عمل درآمد بھی اگلے تین سے چار ہفتوں میں ہو جائے گا۔ باخبر ریاستی ذرائع کا کہنا ہے کہ بزدار کو فارغ کرنے کے معاملے پر اب طاقتور حلقے ڈٹ گئے ہیں اور انھوں نے واضح کیا ہے کہ بزدار کا مزید اقتدار میں رہنا ناصرف پنجاب بلکہ مرکزی حکومت اور وزیر اعظم کی ساکھ کی مزید تباہی کا بھی باعث بنے گا لہذا اب اس معاملے پر ضد کرنے کی بجائے دانشمندی سے فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بار بار یار بزدار کی تبدیلی کی خبروں کے بعد لاہور آکر اپنے وسیم اکرم پلس کی پیٹھ تھپتھپا نے والے کپتان کو نا صرف بزدار کی نکمی ترین پرفارمنس پر بریفنگ دی گئی ہے بلکہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب کی مبینہ کرپشن کی داستانوں سے بذریعہ دستاویزات بھی آگاہ کیا گیا ہے جن میں سے ایک معاملے میں ان پرقومی احتساب بیورو یعنی نیب نے کارروائی کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
یاد رہے کہ نیب نے بزدارکو 12 اگست کے روز اپنے لاہور افس میں طلب کیا یے۔ ان پر الزام یے کہ انہوں نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور کے ایک ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے کی رشوت کے عوض جاری کیا تھا۔ حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عثمان بزدار کے فراغت کے حوالے سے معاملات اب تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اس مرتبہ تبدیلی چند ہفتوں میں وقوع پذیر ہوجائے گی۔ جب ذرائع سے بزدار کے متبادل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی وزارت اعلیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار تھے جن کے بغیر نہ تو بزدار وزیراعلیٰ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی اگلا کوئی وزیر اعلیٰ بن پائے گا۔ ق لیگ پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ بزدار کی فراغت کی صورت میں پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ ہوں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان ایسا نہیں چاہتے۔ کپتان کی شرط یہ ہے کہ اگر بزدارجائے گا تو پرویز الٰہی ان کا متبادل نہیں ہوگا لہذا سب مسئلہ صرف اتنا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیداوار ایسا آدمی ہو جسے اسٹیبلشمنٹ بھی تسلیم کرے، کپتان بھی مانے اور وہ ق لیگ کو بھی قابل قبول ہو۔ لہٰذا علیم خان اور میاں اسلم اقبال کے نام مسترد ہونے کے بعد اب قرعہ فال پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کے نام نکل رہا ہے جو ماضی میں چودھریوں کے قریب رہے ہیں اور ق لیگ چھوڑ کرتحریک انصاف میں جانے کے باوجود اب بھی چودھریوں سے اعتماد کا تعلق برقراررکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے علاوہ اگر پرویز الٰہی کسی اور کو بزدار کا متبادل بنانے پر مان سکتے ہیں تو وہ راجہ بشارت ہی ہیں لیکن اس کے عوض وہ پنجاب میں ڈی فیکٹو حکمران بنائے جانے کا مطالبہ بھی ضرورکریں گے لیکن اگر راجہ بشارت کے علاوہ کسی کو وزیراعلی پنجاب بنانے کی کوشش کی گئی تو قاف لیگ اس کھیل کا حصہ نہیں بنے گی اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنانے کو ترجیح دے گی۔
یاد رہے کہ پنجاب کابینہ میں قانون اور پارلیمانی امور کا قلمدان رکھنے والے راجہ بشارت سابقہ وزرائے اعلیٰ شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی دونوں کی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ راجہ بشارت سابق ایم پی اے راجہ لال خان کے صاحبزادے ہیں۔ بشارت نے 70 کی دہائی میں پیپلز پارٹی سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا، بعد ازاں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی، 1990 میں آئی جے آئی یعنی اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑکرصوبائی اسمبلی کا حصہ بن گئے۔ 1993 اور 1997 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر قانون و پارلیمانی امور مقرر کئے گئے۔ 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے ن لیگ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے۔ 2002 کے انتخابات میں انھوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پرصوبائی نشست کیلئے الیکشن لڑا لیکن ناکام رہے تاہم وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہی نے 3 جنوری 2003 کو انھیں بطور مشیر پنجاب کابینہ میں شامل کر لیا۔ تاہم 15 جنوری 2003 کو ضمنی انتخابات میں الیکشن جیت کر وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ 2008 اور 2013 میں انھوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تاہم ناکام رہے۔ جون 2018 میں انھوں نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اوررکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو گئے اور 29 جون 2018 کو مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ 27 اگست 2018 کو انھیں بطور صوبائی وزیر قانون پنجاب کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ بزدار کے متبادل کے طور پر راجہ بشارت پر اتفاق ہو پاتا ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو غیر قانونی طور پر ایک ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس جاری کرنے کے الزام میں طلب کیے جانے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا بزدار کو گھر بھیجوانے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے یا نیب بیلنسنگ ایکٹ کے طور پر کوئی ڈرامہ رچا رہا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق بزدارپر الزام ہے کہ انہوں نے ہوٹل کو یہ غیرقانونی لائسنس دلوانے کے عوض پانچ کروڑ روپے کی رشوت وصول کی۔ نیب ذرائع کے مطابق لاہور ایئر پورٹ کے قریب زیر تعمیر ہوٹل نے پاکستان ہوٹلز اینڈ ریسٹورنٹ ایکٹ 1976 اور رولز 1977 کے 4/5 اسٹار کی درجہ بندی کے تحت محکمہ ٹورسٹ سروسز پنجاب سے رجسٹریشن اور لائسنس حاصل کیے بغیر ایل 2 شراب کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو درخواست دی تھی۔ ایل-2 شراب کے لائسنس کے حصول کے لیے 4 یا 5 اسٹار ریٹنگ کی شرط ضروری تھی کیونکہ 2009 میں وزیر اعلی نے ایک ایسی پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت صرف 4/5 اسٹار ریٹنگ والے ہوٹلز کو ایل-2 شراب لائسنس کی گرانٹ دیا جاتا ہے۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے سی ایم پالیسی 2009 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور پنجاب کے محکمہ ٹورسٹ سروسز سے ہوٹل کی رجسٹریشن کے بغیر سن 2019 میں ہوٹل میں لائسنس دیا تھا۔ اس خلاف ورزی کا سب سے واضح پہلو یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے وزیراعلیٰ کو یہ معاملہ بھجوایا تھا اور کہا تھا کہ یہ سی ایم پالیسی 2009 کے خلاف ہے تاہم سی ایم نے محکمے کو پھر بھی ہوٹل کو لائسنس جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کام کے عوض عثمان بزدار کے ایک قریبی رشتے دار کو 5 کروڑ روپے رشوت دیے گئے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عثمان بزدار کو غیر قانونی شراب لائسنس کیس میں نیب کی جانب سے طلبی کا نوٹس دراصل انہیں عہدے سے ہٹانے کا بہانہ ہے۔ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار نے لاہور میں بننے والے ایک بڑے ہوٹل کو غیر قانونی طور پر شراب بیچنے کا لائسنس دیتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بزدار نے مذکورہ لائسنس جاری کر کے سی ایم پالیسی 2009 کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا انہیں وضاحت کے لیے 12 اگست کو نیب آفس لاہور طلب کیا گیا ہے۔ بزدار پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے ڈی جی ایکسائز کے اختیارات کا غیر قانونی طور پر استعمال کیا اور ایسا کرتے ہوئے پالیسی اور قوانین کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اس اہم ڈویلپمنٹ کے بعد کچھ تجزیہ کار اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ نیب کے ذریعے عثمان بزدار کی طلبی کا نوٹس دراصل انہیں ملعون و مطعون کر کے وزارت اعلی سے ہٹانے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
جب نیب ذرائع سے عثمان بزدار پر عائد کردہ الزامات کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ کیس ہے اور اگر وزیر اعلیٰ پنجاب نیب کو سوالات پر مطمئن نہ کر سکے تو ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع کر دی جائے گی جس کے بعد ان کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button