کراچی یونیورسٹی جنسی درندوں کا گڑھ کیسے بن گئی؟

جامعہ کراچی 5 اکتوبر 2020 کی شام ایک لڑکی کے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعے کے بعد سے ٹوئٹر پر "کراچی یونیورسٹی از ناٹ سیف” اب ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے اور کراچی کی سب سے قدیم جامعہ کو جنسی درندوں کا گڑھ قرار دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کو حال ہی میں لاہور موٹروے پر ہونے والے ریپ کے واقعے سے بھی تشبیہ دی جا رہی ہے۔ جامعہ کراچی کے طلبہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اغوا کار، ریسپٹ اور لٹیرے آزاد ہیں اور بغیر کسی روک ٹوک کے انہیں خوفزدہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یہ سرکاری یونیورسٹی ہے یا کوئی جنگل؟
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سرکاری یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے واقعے کے بعد کئی طلبہ سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال پر نوحہ کناں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہیش ٹیگ کراچی یونیورسٹی از ناٹ سیف یعنی کراچی یونیورسٹی محفوظ نہیں پر ہونے والی بحث پاکستان کے ٹاپ ٹوئٹر ٹرینڈز میں شامل ہو گئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان کے مطابق طالبات کے ساتھ ہراسانی کا یہ واقعہ 5 اکتوبر کو پیش آیا اور 7 اکتوبر کو ان کے علم میں لایا گیا۔ ان کے مطابق متاثرہ طالبات اور ان کے ساتھ موجود طالب علم سید شہیر علی نے اس واقعے میں ملوث چند افراد کی شناخت کی ہے جو یونیورسٹی کے اندر موجود آبادی کے رہائشی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی از ناٹ سیف کا ٹرینڈ اس وقت شروع ہوا جب ایک طالب علم سید شہیر علی نامی طالب علم نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اور ان کی ایک ساتھی کو رات کے وقت کئی موٹرسائیکل سواروں نے کراچی یونیورسٹی کے کیمپس کے اندر ہراساں کیا اور وہ بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچا کر نکلے۔ شہیر علی نامی ان طالبِ علم نے مبینہ طور پر اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اسے حال ہی میں لاہور تا سیالکوٹ موٹروے پر ہونے والے ریپ سے تشبیہ دی۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے ایک دوست کی سالگرہ کی تقریب سے لوٹ رہے تھے اور ان کے ساتھ گاڑی میں ان کی دو فرینڈز بھی تھیں جن میں سے ایک کو انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے گرلز ہاسٹل جانا تھا۔ شہیر نے انھیں تقریباً رات کے ساڑھے گیارے بجے آئی بی اے پہنچا دیا اور پھر دوسری دوست کے ہمراہ جامعہ کراچی کے مسکن گیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی کا مسکن چورنگی کی جانب موجود گیٹ آئی بی اے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سڑک خراب حالت میں ہے اور سنسان ہے۔ اسی سڑک پر کراچی یونیورسٹی کا اپنا بزنس سکول، آئی بی اے کے گرلز اور بوائز ہاسٹل اور انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز بھی واقع ہیں۔ شہیر علی کے مطابق اس دوران راستے میں چار موٹر سائیکلوں پر سوار تقریباً 10 کے قریب افراد نے ان کی گاڑی کو روک کر گھیر لیا اور باہر نکلو، باہر نکلو چیخنے لگے۔اس وقت ہر طرف گھپ اندھیرا اور سناٹا تھا اور اس پاس صرف جھاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ میں نے اپنے حواس قابو کیے اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ جب ہم آئی بی اے بوائز ہاسٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے دوبارہ گاڑی کا گھیراؤ کر لیا اور چیخنے لگے کہ لڑکی کو باہر نکالو، گاڑی روکو۔ باہر آؤ۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس وقت ہم کس حالت میں تھے، میری دوست تو ابھی تک شدید خوف میں مبتلا ہے اور تب سے ابتک سو نہیں سکی۔ شہیر علی نے پوسٹ میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر وہ افراد گاڑی کا دروازہ کھلوانے میں کامیاب ہو جاتے تو یقیناً ان کو مار پیٹ کر پھینک دیتے، جس کے بعد سب جانتے ہیں کہ لڑکی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔انھوں نے بتایا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور مسکن گیٹ پر پہنچ کر چوکیداروں کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور لڑکے 15 سے 25 برس کے درمیان لگ رہے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں وحشت عیاں تھی۔ شہیر نے لکھا کہ انھوں نے آئی بی اے کی انتظامیہ کو اس واقعے سے آگاہ کر دیا ہے اور ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ ’امید ہے کہ وہ اس معاملے کو رینجرز اور سیکیورٹی والوں کے سامنے اٹھائیں گے۔
شہیر کی یہ پوسٹ منظر عام پر آئی تو جامعہ کراچی کے دیگر طالب علموں نے بھی ماضی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی واقعات بیان کیے۔ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے ایک طالبہ نے کہا کہ 18 ستمبر کو شام سات بجے کے قریب وہ شبعہ فزیالوجی سے مسکن گیٹ کی طرف آ رہی تھیں کہ آئی بی اے کے قریب ایک آدمی نے اپنی بائیک ان کے قریب روکی اور پیشکش کی کہ وہ انھیں گیٹ تک چھوڑ آئیں گے۔ صارف کے مطابق اس شخص کی عمر 50 برس کے قریب ہوگی۔ تاہم جب طالبہ نے ان سے کہا کہ ذرا ایک منٹ رکو، میں تمہاری تصویر بناتی ہوں، یہ سن کر اس شخص نے بائیک سٹارٹ کی اور وہاں سے نکل گیا۔ شہیر کی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد صارفین نے بھی #Karachiuniversityisnotsafe پر خوب بحث کی۔ تحریم فاطمہ ٹوئٹر پر لکھتی ہیں: وہ بچ گئے۔ لڑکیوں نے خود کو درندوں سے محفوظ رکھا، لیکن کیا مجھے یونیورسٹی جاتے ہوئے پریشان ہونا چاہیے؟ کیا میں وہاں محفوظ ہوں؟ ایم طلحہ شاہد لکھتے ہیں کہ اغوا کار، ریسپٹ اور لٹیرے سڑکوں پر آزاد ہیں اور لوگوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے خوفزدہ کر رہے ہیں یہ یونیورسٹی ہے یا جنگل۔ یہ سرکاری یونیورسٹی ہے اور سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
طلبہ ہی نہیں، یونیورسٹی کے اساتذہ بھی ہراسانی کے ایسے واقعات سے تنگ ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے چیئرمین ڈاکٹر ریاض احمد کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں شام کی کلاسیں، یعنی ایوننگ پروگرام اب ہراسمنٹ پروگرام بن گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے قبل ان کی ایوننگ شفٹ میں کام کرنے والی ایک ساتھی کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلاس کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے اسی مقام پر ایک موٹر سائیکل سوار نے ان کا تعاقب کرنا شروع کر دیا اور وہ بمشکل ایک کولیگ کی کار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ متعدد بار یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات سے آگاہ کر چکے ہیں تاہم اس ضمن میں اب تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے شعبے سمیت آس پاس کے شعبوں میں ہزار کے قریب طالب علم اور طالبات پڑھتے ہیں جبکہ سیکیورٹی کے لیے صرف ایک چوکیدار موجود ہے۔ رینجرز صرف طلبا میں تصادم روکنے یا ایڈمن بلاک کے باہر احتجاج کے وقت موجود ہوتے ہیں۔ تین اہلکار وی سی کے ساتھ ہیں اور کچھ گیٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کا باقی یونیورسٹی کی سیکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کراچی یونیورسٹی کی انتطامیہ کے مطابق صبح اور شام کی شفٹ میں کُل 42 ہزار کے قریب مستقل طالب علم پڑھتے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان کے مطابق متاثرہ طالب علم کی جانب سے شکایت آئی بی اے کو ای میل کی گئی تھی تاہم متاثرین پولیس یا رینجرز کے پاس یہ شکایت باضابطہ طور پر نہیں لے کر گئے۔ ڈاکٹر معیز نے بتایا کہ انھوں نے شکایت کرنے والے نوجوان کو چند مشکوک لڑکوں کی تصاویر بھیجی تھیں جن میں سے تین کو شناخت کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان لڑکوں کی عمریں 14 سے 15 سال کے درمیان ہیں اور وہ یونیورسٹی کے اندر واقع کالونی کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے مسکن گیٹ سے آنے والی سڑک پر اندھیرا ہونے کی اعتراف کیا اور کہا کہ یونیورسٹی کا انجنیئرنگ کا شعبہ اس مسئلے پر پر کام کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تین شفٹ میں 150 کے قریب چوکیدار ہیں اورہر شفٹ میں پچاس چوکیدار ہوتے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی یونیورسٹی کا ماحول پرامن ہے اور شام سے لے کر رات تک یونیورسٹی میں موجود کالونی کے رہائشی اساتذہ اور ان کے خاندان چہل قدمی کرتے ہیں اور کئی طالبات بھی اسی گیٹ سے آتی جاتی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی انتظامیہ کے ان دعووں کے باوجود ایوننگ پروگرام میں رجسٹرڈ طالبات اور خواتین اساتذہ کی سیکیورٹی یقینی بنانا جامعہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر 5 اکتوبر والے واقعے کے ذمہ داران کو سزا مل گئی تو مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ہوسکتا ہے اور یہی جامعہ کراچی سمیت ملک بھر کی طالبات اور والدین کا مطالبہ جسے سوشل میڈیا پر بار بار دہرایا جا رہا ہے۔