اسد درانی کی نئی کتاب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چارج شیٹ


سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ر اسد درانی نے اپنی ایک اور کتاب انڈیا سے شائع کردی ہے جس میں نئے انکشافات تحریک انصاف حکومت اور ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لئے درد سر بن سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین سوال کررہے ہیں کہ پاکستان میں یہ کھلا تضاد کیوں ہے کہ جن قومی رازوں پر سیاستدان غدار قرار پاتے وہی راز جرنیل کتابوں میں لکھ کر بیچتے ہیں۔ یاد رہے کہ اسد درانی نے اپنی پچھلی کتاب را کے ایک سابقہ چیف کے ساتھ مل کر لکھی تھی جس پر انہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن بعد میں ان کو دی گئی سزا ختم کر دی گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسد درانی کی نئی کتاب ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب پاکستان کی سیاست میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے موجودہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو مورد الزام ٹھہرانے کے بعد ایک بھونچال آ چکا ہے۔ درانی کے نئے انکشافات کے بعد برسراقتدار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید سبکی کا سامنا ہوگا۔ علاوہ ازیں چونکہ یہ کتاب بھارت میں شائع ہوئی ہے اس لئے توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر پاکستان میں بھی سمگل کیا جائے گا۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کی نئی کتاب آنر امنگ سپائیز کے مندرجات بتاتے ہیں کہ پاکستان پر ہمیشہ سے حکومت کرنے والی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک سابق جرنیل کی یہ نئی تصنیف فوج اور حکومت دونوں کے لئے درد سر بن سکتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے بیانئے کو بھی مزید پذیرائی ملے گی کہ فوج کو سیاست سے باز رہنا چاہیے۔ اگرچہ اس کتاب کے شروع میں ہی بتایا گیا ہے کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ فنکشن یعنی افسانہ ہے اور کسی بھی قسم کے حقیقی واقعات سے اس کتاب کے مندرجات کی مطابقت محض اتفاقیہ ہوگی تاہم کتاب پڑھنے سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اس میں پاکستان پر روز اول سے حکمرانی کرنے والی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر کس جاندار طریقے سے تنقید کے نشتر چلائے گئے ہیں۔ رواں مہینے بھارت میں شائع ہونے والی اپنی اس کتاب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے دو سال قبل بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر لکھی گئی کتاب دا سپائی کرانیکلز کے بعد پیدا ہونے والے پہلے حالات سے متعلق دلچسپ مگر استعاراتی اور طنزیہ پیرائے میں لکھا ہے۔ واضح رہے کہ 2018 میں دا سپائی کرانیکلز کے عنوان سے ایک کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی پینشن عارضی طور پر روک لی گئی تھی اور چند مہینے پہلے ہی بحال کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب کی پاداش میں سابق آئی ایس آئی چیف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر دیا گیا تھا اور پاک فوج کے ترجمان نے اس حوالے سے ایک انکوائری کروانے کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ اس کتاب میں ایبٹ آباد کا اسامہ آپریشن اور مقبوضہ کشمیر اور کارگل سمیت دیگر معاملات کو بیان کیا گیا تھا۔ کتاب منظر عام پر آنے کے بعد فوج کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزارت دفاع نے باضابطہ طور پر اس معاملے میں ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں اس درانی کے خلاف ‘فارمل کورٹ آف انکوائری’ کا حکم دیا تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو اپنے بیانات پر پوزیشن واضح کرنے کے لیے جی ایچ کیو بھی طلب کیا گیا تھا۔پھر فروری 2019 میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف انکوائری مکمل کر لی گئی ہے جس میں وہ ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو بطور ریٹائرڈ آفیسر فوج سے جو پنشن اور مراعات مل رہی تھیں وہ روک دی گئی ہیں تاہم ان کے رینک کو برقرار رکھا گیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو 27 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ فوج کی جانب سے پیپلزپارٹی کو الیکشن ہروانے کے لئے نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی بنا کر سیاست دانون میں رقم تقسیم کرنے سے متعلق اصغر خان کیس میں اسد درانی کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ پتہ چلا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ جنرل ر اسد درانی کہتے ہیں کہ 2018 میں ان کے خلاف را کے سربراہ کے ساتھ ملکر کتاب لکھنے کے حوالے سے کی جانے والی انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ان کے خلاف کوئی بھی غیر قانونی یا خلاف ضابطہ بات ثابت نہیں ہوئی۔ اسد دورانی کہتے ہیں کہ میں نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دُلت کے ساتھ مل کر جو کتاب لکھی تھی اس میں وہی تمام باتیں ہیں جو گلی محلے کے لوگ بھی جانتے ہیں اور یہ تمام باتیں دیگر جنرلز بالخصوص ساقب صدر اور آرمی چیف جنرل ر پرویز مشرف بھی اپنی کتاب ان دا لائن آف فائر میں کئی سال قبل لکھ چکے ہیں۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2018 میں لکھی گئی اپنی کتاب میں را کے سابق سربراہ ایس کے دُلت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی مس ہینڈلنگ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرکے انہیں کتاب کا حصہ بنایا۔ اسد درانی کہتے ہیں کہ انہیں ایس کے دُلت کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے پر اس لئے بے پناہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس سے قبل وہ بی بی سی اور الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویوز اور کئی کانفرنس میں یہ بتا چکے تھے کہ پاکستان کی فوج کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کے بارے میں آگاہی حاصل تھی اور انہوں نے یہ معلومات امریکہ سے چھپائے رکھیں۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے حوالے سے امریکہ نے اس وقت پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں نہیں اعتماد لیا گیا اور پھر بعد میں اسامہ بن لادن کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اسد درانی کہتے ہیں کہ اگر میں اس وقت پاک فوج میں با اختیار عہدے پر فائز ہوتا تو میں اسامہ بن لادن کو ایسی جگہ پر رکھتا جس کے بارے میں امریکہ کو کبھی علم نہ ہو پاتا اور پھر ایک دن امریکیوں کو بلوا کر کہتا کہ یہ ہے اسامہ بن لادن، جاؤ اس کو لے جاؤ۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ ایک غیر ملکی فوج کو اپنے ملک میں آکر آپریشن کی دعوت دینا نا بلاشبہ نااہلی کی ایک بڑی مثال ہے کیونکہ اس طرح آپ کے ملک میں جو شخص قتل ہو جاتا ہے اسے مقامی ہیرو کا درجہ مل جاتا ہے۔ اسد درانی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی سے منسلک رہنے والے کرنل کے عہدے کے افسر نے امریکی سفارت خانے جاکر اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد والے ٹھکانے کے بارے میں امریکیوں کو مخبری کی تھی۔
اسد درانی کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح وہ اشاروں کنایوں میں مختلف واقعات اور شخصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ اور پاک بھارت مخاصمت سے واقف کوئی بھی شخص آسانی سے جان دیتا ہے کہ درانی کا اشارہ کس واقعے یا شخصیت کی جانب ہے۔ اپنی اس کتاب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے خود کو اسامہ بارکزئی نامی ایک پشتون شخص کی صورت میں دکھایا ہے جس کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جاگیردار والدین پاکستان کے شہر گجرات میں مقیم ہیں۔ درانی نے اس کتاب میں سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کا نام گلریز شاہ رخ کے کردار میں دکھایا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اسد درانی نے اپنی اس کتاب میں جبار جٹ نام دیا ہے۔ درانی نے حیران کن طور پر یہ بھی لکھاہے کہ جبار جٹ کو نوین شیخ یعنی پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے آؤٹ آف ٹرن اور میرٹ کے برخلاف اس لئے آرمی چیف لگایا تھا کہ نوین شیخ اور جبار جٹ کے سسرالیوں کی آپس میں دوستی تھی۔
سابق آئی ایس آئی چیف حمید گل کو گل محمد، سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کو اکرم مغل ل موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خورشید قادری اور یوٹرن سپیشلسٹ کا نام دیا ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب مین سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کو راجہ رسالو اور کوئٹہ سٹاف کالج کے دنوں میں اپنا کا پسندیدہ ترین سٹوڈنٹ قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نے راجہ رسالہ کو پاکستان کی تاریخ کا کا ایک غیر معمولی فکر رکھنے والا منفرد جرنیل قرار دیا ہے اور یہاں تک لکھا ہے کہ سروس کے آخری دنوں میں راجہ رسالو کی دولت اور عہدے کی جانب رغبت بڑھ گئی تھی۔ خیال رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد پر ان کی سروس کے دوران بڑے پیمانے پر خوردبرد اور کرپشن کے الزامات ہیں۔ اسد درانی نے اپنی اس کتاب میں پاکستان کی مطلق العنان کی سی حیثیت رکھنے والی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دی نیشنل گارڈز کا نام دیا ہے۔ جنرل اسد درانی نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے لیے انگریزی زبان کا لفظ لی استعمال کیا ہے۔ خیال رہے کہ لی ایسے مقام کو کہتے ہیں جہاں پر خطرناک جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔ اسد درانی نے ان سے تفتیش کرنے والے بہت سے آئی ایس آئی اہلکاروں کے نام بھی اس انداز میں لکھے ہیں کہ اس وقت آئی ایس آئی میں شامل افسران بخوبی جان سکتے ہیں کہ اسد درانی نے جن کا ذکر خیر کیا ہے۔ اسد درانی نے اپنی اس کتاب میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دُلت کو رندھیر سنگھ کہہ کر پکارا ہے۔ کارگل کے واقعے کو پیر پنجال پاس کا نام دیا گیا ہے۔ حال ہی میں قتل ہونے والے کشمیری صحافی شجاعت بخاری کے لیے انہوں نے وجاہت ثمرقندی نام منتخب کیا ہے۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے تحقیقاتی صحافت کرنے والے معروف امریکی صحافی سیمور یرش کو درانی نے سائمن ہرش کا نام دیا۔ بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو شرما اور سردارمنموہن سنگھ کو کے آئی گجر لکھا ہے۔ درانی نے اپنی اس کتاب میں دو سال قبل پاکستان کے شہر ناروروال کے سرحدہ علاقے میں بننے والے کرتار پور گردوارہ کو سردار پور کا نام دیا ہے۔
اسد درانی نے اپنی نئی کتاب میں ایک دلچسپ بات یہ بتائی ہے کہ پاکستان میں تعینات امریکا برطانیہ اور جرمنی کے کے انڈر کور انٹیلی جنس اہلکاروں نے ان سے کہا کہ وہ را کے سابق سربراہ ایس کے دُلت کے ساتھ ساتھ بات چیت کے دوران بھارت سے متعلق زیادہ سے زیادہ راز اگلوانے کی کوشش کریں۔ درانی کا کہنا ہے کہ ایسی ہی کوشش ایس کے دُلت کے ساتھ بھی نئی دہلی میں کی گئی تاکہ وہ میرے ساتھ ہونے والی نشستوں کے دوران پاکستان سے متعلق زیادہ سے زیادہ سادہ حقائق اور خفیہ باتوں کو کرید کر انہیں منظر عام پر لانے کی کوشش کریں۔ اسد درانی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے لوگوں کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں۔
اسد درانی اپنی طنزیہ داستان کا خاتمہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کئی سماعتوں کے بعد انہیں الزامات سے بری قرار دے دیتی ہے۔ درانی لکھتے ہیں کہ کیس کی سماعت کے دوران ایئر ڈیفینس سے تعلق رکھنے والے افسر بشرخان جنہیں آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے متعلق گواہی دینا ہوتی ہے وہ آخری لمحات میں اپنی جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر گواہی دینے سے مکر جاتے ہیں۔ درانی لکھتے ہیں کہ جب میرے خلاف مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے تو پاکستان کے موجودہ آرمی چیف چیف جنرل باجوہ کو ان کے اس وقت کے پاس جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے مجھ پر دبائو ڈالنے کا کہا جاتا ہے
اسد درانی نے اپنی روداد کے ساتھ پاک و ہند کے معروف شاعر اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر بھی لکھا
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
نہ دے دل ان کو ، تو دے مجھ کو زبان اور
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ مجھے غلط سمجھا گیا اور ہمیشہ میرے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ اے اللہ انہیں ایک اور دل دے اور مجھے مزید توانا آواز عطا کر تاکہ میں اپنی بات سمجھانے کے قابل ہوجاوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button