مولانا فضل الرحمان اور محسن داوڑ میں تلخ کلامی کیوں ہوئی؟


17 نومبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد کے اعلی سطح کے اجلاس کے دوران پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رینما محسن داوڑ کے مابین تلخ کلامی ہوگئی اور دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے پر اسٹیبلشمینٹ کا ایجنڈا لے کر چلنے کے الزامات عائد کر دیے۔ باخبر ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کے مابین بحث کا آغاز فاٹا کے انضمام کے معاملے پر ہوا۔ مولانا کا موقف تھا کہ فاٹا کا انضمام فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا تھا جس کی پشتون تحفظ موومنٹ نے حمایت کی جبکہ محسن داوڑ کا موقف تھا کہ فاٹا کا انضمام دراصل عوام کا ایجنڈا تھا جس کا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اس بحث کا اختتام محسن داوڑ کی جانب سے ایک truth commission بنانے کا مطالبہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی تجویز مولانا کی جانب سے رد کیے جانے پر ہوا۔ مولانا نے مطالبہ رد کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج ٹروتھ کمیشن مانگ رہے ہیں، جبکہ فاٹا میں تو ظلم آدھی صدی سے ہورہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ سے سوال کیا کہ میری جماعت کو شمالی وزیرستان میں جلسہ نہیں کرنے دیا جارہا ج کہ پی ٹی ایم نے میران شاہ میں جلسہ بھی کیا اور اسے فوج اور انتظامیہ کی جانب سے محفوظ راستہ بھی دیا گیا؟ مولانا نے کہا کہ اس نوازش کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
محسن داوڑ نے مولانا کو سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بم نے میران شاہ میں بزورِ بازو اور زبردستی جلسہ کیا ہے۔ ہمارے خلاف ایف آئی آرز کٹی ہیں، ہم نے سیکیورٹی کے بغیر خود جلسہ کیا ہے اور ہمارے لوگوں کو جگہ جگہ روکا گیا۔ انہوں نے مولانا سے کہا کہ آپ بھی بزور بازو جلسہ کرلو تو کوئی نہیں روکے گا۔ میران شاہ میرا ذاتی حلقہ ہے۔ آپ اگر اسلام آباد مارچ کرکے آسکتے ہو تو شمالی وزیرستان میں جلسہ کیوں نہیں کر سکتے؟ اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے مزید سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ جناب مجھے آپکے بازوؤں کا زور معلوم ہے ۔ جب ملٹری آپریشنز چل رہے تھے اور فاٹا کا انضمام ہورہا تھا تو میں اکیلا ان کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ تب آپ انہی اداروں اور فوج کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے تھے؟
محسن داوڑ نے بھی مولانا کو اسی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ فاٹا کے انضمام کو یہاں اجلاس میں بیٹھے تمام لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ ھم نے تحریک کے طور پر اس فیصلے کی حمایت نہیں کی تھی۔ البتہ فوجی آپریشنوں اور تباہی و بربادی کے دوران آپ فوجی حکومت کا حصہ تھے، اس کیے میں نے ٹروتھ کمیشن بنانے کی ڈیمانڈ کی تو آپکو برا لگا ؟
محسن داوڑ کو جواب دیتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کون اور کس حیثیت سے پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں بارہا ہے؟ اس پر محسن داوڑ نے کہا کہ میں آزاد حیثیت سے یہاں بیٹھا ہوں جسکی اجازت مجھے آئین دیتا ہے۔ میں قبائلی پشتونوں کا منتخب نمائیندہ ہوں، اگر میں انکی بات نہیں کرونگا تو کون ہے یہاں جو جنگ زدہ پشتونوں کی بات کرے؟ اس پر مولانا نے کہا کہ یوں تو پھر کل کو طالبان کمانڈران بھی پشتونوں کی نمائندگی کا دعوی کر دیں گے۔ اس پر محسن داوڑ نے جواب دیا کہ بالکل ایسا ہی ہے، طالبان تو پہلے بھی کئی شکلوں میں اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، اگر عوام انکو پاس کرکے اسمبلی میں بھیجتی ہے اور کسی مسلے پر انکا اور آپکا موقف ایک ہے تو ہمیں لازمی انکو سننا ہوگا۔ اس پر پھر مولانا نے داوڑ سے دوبارہ پوچھا کہ آج کے سربراہی اجلاس میں آپکی پارٹی کے سربراہ کیوں نہیں آئے ہیں؟ اس پر محسن نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت سے پی ڈی ایم کے اجلاس میں شامل ہوں۔ ہمارے سربراہ کو یہاں کون قبول کریگا جب مجھے اور میری باتوں کو قبول نہیں کیا جا رہا۔ محسن داوڑ نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں عوام کی آنکھوں میں ھمیشہ دھول جھونکی گئی ہے۔ تحریک شروع کرکے لیڈران ھمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے آگے جھکے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اس اجلاس میں شرکت سے اصل میں کس کو مسئلہ ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button