پاکستان کو اربوں کا چونا لگانے پر احتساب نیب کا ہو یا کپتان کا؟

ایک برطانوی عدالت کے ہاتھوں ساڑھے سات ارب روپے جرمانہ کیے جانے کے بعد اب قومی احتساب بیورو نے یہ بھونڈا موقف اختیار کیا ہے کہ اثاثے ڈھونڈنے والی فرم براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ مشرف دور میں سنہ 2000 ہوا تھا جسکی خلاف ورزی پر اسے یہ جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیب کا حالیہ موقف سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے کیوں کہ براڈ شیٹ کو شریف برادران کے لندن میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس ضبط کروانے اور بکوانے کے لئے برطانوی عدالت میں کیس کرنے کا مشورہ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے شہزاد اکبر کے کہنے پر دیا تھا جو الٹا پڑ گیا اور قومی خزانے کو ساڑھے سات ارب روپے کا چونا لگ گیا۔

یاد ریے کہ کچھ برس پہلے قومی احتساب بیورو کی جانب سے براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ برطانیہ میں پاکستانی سیاستدانوں کے اثاثے ڈھونڈنے کا معاہدہ اچانک ختم کیے جانے کے بعد امریکی فرم نے حکومت پاکستان پر ہرجانے کا کیس دائر کر دیا تھا۔ دسمبر 2018 میں مرکزی ثالث کی حیثیت سے انگلش کورٹ کے جج سر انتھونی ایونز کیو سی نے حکومت پاکستان کی جانب سے براڈشیٹ کمپنی کو 2 کروڑ 20لاکھ ڈالر ادائیگی کا حکم جاری کیا تھا۔ جولائی 2019 میں حکومت نے ثالثی کی اپیل کی لیکن وہ اس میں ناکام رہی، ثالث نے فیصلہ دیا کہ حکومت پاکستان اور نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے کو غلط مسترد کیا اور فیصلہ دیا کہ کمپنی ہرجانے کی حقدار ہے۔ اس دوران نیب نے براڈشیٹ کمپنی کو یہ مشورہ دے ڈالا کہ وہ اپنی فیس کی وصولی کے لیے لندن ہائی کورٹ میں سریفوں کے ایون فیلڈ ہاؤس کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے دعویٰ دائر کرے جس کی بنیاد یہ تھی کہ نیب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کو سزا سناتے ہوئے یہ حکم بھی دیا تھا کہ ان کی برطانیہ کی جائیدادیں ضبط کرلی جایئں۔

تاہم برطانوی عدالت نے یہ دعویٰ خارج کردیا اور لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے کھاتوں سے 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی بھاری رقم ادا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ 2 دسمبر 2020 کو نیب کے خلاف لندن ہائی کورٹ کے حکم نامے میں برطانوی عدالت نے قرار دیا کہ براڈشیٹ کے ایون فیلڈ دعوے سے متعلق ماسٹر ڈیوسن کا عبوری چارجنگ آرڈر خارج کیا جاتا ہے۔ اس حکم آنے کے بعد حکومت پاکستان نے اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ کو دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر جرمانہ کی ادائیگی کردی ہے اور ابھی 90 لاکھ ڈالرز بطور سود مذید ادا خرنے ہیں۔ اس سے قبل جرمانے کی ادائیگی کے تنازع پر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مشکلات کا سامنا تھا اور پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے تھے۔
ماہرین قانون قومی احتساب بیورو کے اس عمل کو مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام کا تقاضا کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان نے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں نیب نے امریکی فرم براڈ شیٹ سے معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد بیرون ملک سو سے زائد پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات اکٹھا کرنا تھا۔یہ معاہدہ بعد ازاں 2003 میں ختم کر دیا گیا تھا جس پر امریکی فرم نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عالمی معاہدے کو یک طرفہ ختم کرنا جرمانے و سبکی کا باعث بنا۔ اس مقدمے سے آگاہی رکھنے والے قانونی ماہرین اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ نیب کی جانب سے برتی جانے والی کوتاہی پر ذمہ داران کا تعین کیا جانا چاہئے۔ اس مقدمے کی رپورٹنگ کرنے والے لندن میں مقیم پاکستانی صحافی مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ پاکستانی قانونی ماہرین کی غلط آرا کے باعث پاکستان کو نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا بلکہ عالمی سطح پر بدنامی کا بھی سامنا ہوا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا اور جرمانے کی ادائیگی منجمند اکاؤنٹ سے ادا کی گئی اور ان کے بقول اس اقدام کے مستقبل میں بھی اثرات ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت اب تک اس مقدمے میں 50 ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ادا کر چکی ہے جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی معاہدہ تھا جو کہ یک طرفہ ختم نہیں کیا جا سکتا تھا، تاہم پاکستان نے اسے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو اس مقدمے سے متعلق قانونی رائے دینے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جس کے باعث پاکستان کو بھاری جرمانہ اور عدالتی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

برطانیہ میں وکالت سے منسلک بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ براڈ شیٹ کے مقدمے میں بقول ان کے غفلت نہیں بلکہ مجرمانہ نااہلی ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ نیب کے معاملات میں پارلیمانی، عدالتی و ادارہ جاتی نگرانی کا نہ ہونا ہے۔انہوں نے کہا نیب نے یہ معاہدہ کرتے وقت نہ تو اٹارنی جنرل آفس سے مشاورت کی اور نہ ہی دفتر خارجہ یا ہائی کمیشن سے مدد لی گئی، بلکہ پیپرا قواعد کو نظر انداز کیا گیا۔ امجد ملک کہتے ہیں کہ پہلے رائج قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر ملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا اور پھر اسے یک طرفہ طور ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم نہ ماننے کے باعث پاکستان کو اب عائد جرمانے اور ساتھ سود کی رقم ادا کرنا پڑی ہے۔

اس سلسلے میں مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ نیب کی وجہ سے پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے بینک اکاؤنٹ منجمند ہونا ایک بڑی سفارتی بدنامی ہے۔
ان کے بقول پاکستان نے بینک اکاؤنٹ منجمند ہونے سے بچنے کے لئے سفارتی استثنیٰ بھی مانگا، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ عدالتی حکم پر منجمد کئے گئے۔وہ کہتے ہیں کہ عدالت کا حکم نہ ماننے کے مستقبل میں خاصے اثرات سامنے آ سکتے ہیں اور عالمی معاہدوں کے وقت پاکستان کو اضافی شرائط کا سامنا ہو سکتا ہے۔مرتضی علی شاہ نے بتایا کہ براڈ شیٹ نے اپنی واجب الاد رقم کے عوض سابق وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی حوالگی کا دعوی کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکی فرم نے اپنے دعوے میں کہا کہ ایون فیلڈ کے چار فلیٹس پاکستان کی حکومت کا اثاثہ ہیں جن کے ذریعے ان کی ادائیگی ہو سکتی ہے، تاہم عدالت نے ان کی اس استدا کو منظور نہیں کیا۔

اس حوالے سے بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اداروں کو لامحدود اختیارات اور مادر پدر آزاد نہیں ہونا چاہئے اور یہ وقت ہے کہ نیب پر پارلیمانی اور عدالتی نگرانی کو لاگو کیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں جوڈیشل پینل موجود ہے جس سے نیب مفت خدمات حاصل کر سکتا تھا۔ امجد ملک کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا جانا چاہئے۔

دوسری طرف دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان ہائی کمیشن نے اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے اٹارنی جنرل پاکستان اور نیب کو بھیجا ہے۔ نیب ترجمان نے اس حوالے سے ایک سوال پر تحریری جواب میں بتایا کہ نیب کی موجودہ مینجمنٹ نے نہ تو یہ معاہدہ کیا اور نہ ہی اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا بلکہ یہ تمام کارروائی گزشتہ ادوار میں ہوتی رہی ہے جس کا موجودہ انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس تمام عمل میں اٹارنی جنرل آفس اور وزارت قانون کی معاونت حاصل رہی ہے اور براڈ شیٹ کے 550 ملین ڈالرز کے دعوے کے مقابلے میں 290 ملین ڈالرز جرمانہ عائد ہوا۔براڈ شیٹ کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی اثاثوں اور رقوم کی بازیابی میں مہارت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کی چیزوں کا سراغ لگانے، تلاش کرنے اور ریاست میں واپس منتقل کرنے میں مصروف ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button