چیف جسٹس کو فائز عیسیٰ کیس میں ساکھ کے بحران کا سامنا

https://youtu.be/lsd0G3f2res

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت سمجھے جانے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر عارف علوی کے دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت یکم مارچ سے شروع ہونے جا رہی ہے لیکن اہم ترین سوال یہ یے کہ کیا چیف جسٹس گلزار احمد جسٹس فائز عیسی کے اس مطالبے کو تسلیم کریں گے یا نہیں کہ سرکاری ٹیلی وژن اس کیس کی مکمل کارروائی براہ راست نشر کرے خصوصا جب جسٹس عیسی اور چیف جسٹس گلزار کے اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان حالات میں نہ صرف پاکستانی عدلیہ کی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے بلکہ چیف جسٹس گلزار احمد کو بھی ساکھ کے گہرے بحران کا سامنا ہے۔
اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استدعا کی ہے کہ عدالت عظمی کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو تمام نجی چینلز کو تحریری ہدایات جاری کرنے کا حکم دینا چاہیے کہ وہ عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے یا کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ سے روک نہیں سکتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ درخواست انصاف کے بہترین مفاد میں کی گئی ہے اور عدالتی کارروائی متعدد ممالک میں نشر کی جاتی ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ صدر علوی کی جانب سے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنے کے فوراً بعد ہی اس کے جھوتے الزامات پر مبنی مندرجات کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا اور کروایا گیا تھا اور اخبارات میں بھی شائع کیا گیا، اس کے علاوہ ان کے خلاف انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی تعمیل نہ کرنا، انکم ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنا، غیر ظاہر شدہ دولت رکھنا اور اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک بھر پور لیکن بے بنیاد اور جھوٹی پروپیگنڈا مہم بھی چلائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ تب سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے وہ بول نہیں سکتے تھے اور عام شہری کی طرح ان الزامات کی تردید کے لیے پریس کانفرنس نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر گرفت رکھنے والے سرکاری فریقین نے بھی اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ ان کی فائلنگ کے مندرجات کو نہ تو نشر کیا جائے گا اور نہ ہی شائع کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرکاری فریق کی جانب سے استعمال کردہ حربوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے اور ان کے اہلخانہ کے بارے میں منفی عوامی رائے قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ سپریم جوڈیشل کونسل یا چیف جسٹس، جو کونسل کے چیئرمین تھے، ایک ساتھی جج کی عوامی توہین کو روکیں گے تاہم ایسا نہیں ہوا اور کونسل نے ان کی بدنامی میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ توازن کو بحال کرنے اور عوامی تاثر کو درست کرنے کے لیے درخواست گزار کے کیس میں آئندہ کی تمام کارروائیوں کو براہ راست نشر یا لائیو اسٹریمنگ کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنا یا لائیو اسٹریمنگ کرنا ان کے بنیادی اور آئینی حقوق کی تصدیق ہوگی۔ تاہم عدالتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس گلزار کی جانب سے فائزعیسیٰ نظرثانی کیس کی کاروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کے احکامات جاری ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ دونوں جج حضرات کے باہمی معاملات کافی خراب ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں میں چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس فائز عیسیٰ کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف کیسوں کی سماعت کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد جسٹس عیسی نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے جسٹس گلزار پر جانبداری برتنے کا الزام عائد کر دیا تھا۔ لہذا ان حالات میں اس کم ہی امکان ہے کہ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کا کوئی ایسا مطالبہ تسلیم کریں جس سے انکا فائدہ ہوتا ہو۔
یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے تحریک پاکستان میں محمد علی جناح کے شانہ بشانہ اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ جسٹس فائز عیسی 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔ یہ جسٹس عیسی کا خاندانی بیک گراؤنڈ ہی ہے جس کی وجہ سے آج وہ اپنے اصولی موقف کے باعث پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ دراصل بھائی لوگ نہیں چاہتے کہ جسٹس عیسی سپریم کورٹ کا حصہ رہیں لہذا ان کے خلاف وزیراعظم کی ہدایت پر صدر علوی نے پچھلے برس سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔ تاہم اس ریفرنس کو دسمبر 2020 میں سپریم جوڈیشل کونسل نے مسترد کر دیا تھا۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ نے اس فیصلے کے کچھ حصوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
اب جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی جسٹس قاضی محمد امین احمد، جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 10 رکنی بینچ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کے سیٹ کی سماعت کا آغاز یکم مارچ کو کرے گا۔ واضح رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے پچھلے برس دسمبر میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا تھا لیکن سات ججز نے جسٹس عیسیٰ کے اہلخانہ کے ٹیکس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا کہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی مرحلے پر یہ معلوم ہو کہ جسٹس عیسیٰ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ چنانچہ جسٹس فائز عیسیٰ، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جن کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ دلچسپ بات یہنیے کہ اس بینچ میں صرف وہی ججز شامل تھے جنھوں نے جستس عیسی کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ باقی تین ججز جنھوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا، ان کو اس بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس دس رکنی بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحی آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو ہی ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔ اس سات رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس فیصل عرب نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظرثانی کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ نظرثانی کی درخواستوں کو بھی وہی بینچ سنے جس نے اس صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی تھی۔ حالیہ چند دنوں میں پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ایک معاملے میں اختلاف سامنے آیا تھا جب وزیر اعظم کے ترقیاتی فنڈز سے متعلق از خود نوٹس کے معاملے پر چیف جسٹس نے اپنے حکنامے میں جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو اس بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف کسی بھی مقدمے کی سماعت کرنے سے روک دیا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک مقدمے میں وزیر اعظم کے خلاف درخواست گزار ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے کے خلاف اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس نے ان کی شہرت کو داغدار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جج کسی غیر قانونی کام کا نوٹس لے سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے ان کی ذات پر اعتراض نہیں کیا جبکہ چیف جسٹس کی طرف سے انھیں جانبدار کہنا افسوسناک ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیر ان پر جانبداری کا الزام لگا دیا اور تحقیقات کی بجائے ایک جج کو وزیر اعظم کے خلاف شکایت کندہ قرار دینے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ کے جج کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کے جس دو رکنی بینچ نے وزیر اعظم کی طرف سے ارکان پارلیمنٹ کو پچاس کروڑ روپے فی کس کے حساب سے دینے کے بارے میں از خود نوٹس لیا تھا اس میں شامل دوسرے جج جسٹس مقبول باقر کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہ کرنے پر ان کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا تھا اور چیف جسٹس کو اس بارے میں خط بھی لکھا گیا تھا لیکن انھیں اس خط کا جواب نہیں ملا۔ اس اختلافی نوٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس از خود نوٹس کا اختتام حیران کن تھا۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس از خود نوٹس کو محض دو سماعتوں کے بعد ہی نمٹا دیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کیا جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی سماعت براہ راست پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں؟ عدالتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ بھائی لوگ بہرحال عدلیہ سے ذیادہ تگڑے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button