سینٹ الیکشن میں خفیہ بیلٹ کا فیصلہ، حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا

سینیٹ الیکشن سے صرف دو روز پہلے حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن طریقہ کار پر دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات صرف آئین کے تحت ہوسکتے ہیں، قانون کے تحت نہیں۔ سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق سینٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ پر کرانا ممکن نہیں اور آئندہ الیکشن خفیہ بیلٹ کے تحت ہوں گے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے یہ فیصلہ یکم مارچ کو ایک اور چار کی نسبت سے سنایا کیوں کہ جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدارتی ریفرنس کے ذریعے مانگی گئی رائے پر اپنی رائے دی۔ اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف و شفاف انتخابات کرائے اور اسے کرپٹ باتوں سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔ عدالتی رائے میں کہا گیا کہ اگر
سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار بدل کر اوپن بیلٹ کا سسٹم لانا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے جو کہ صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے جبکہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔ اکثریتی رائے میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 25 فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں اور ان انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی سامنے آنے والی کاز لسٹ سے معلوم ہوا تھا کہ آج اس معاملے پر رائے دی جائے گی اور اس سلسلے میں اٹارنی جنرل پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے، مزید یہ کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اراکین الیکشن کمیشن اور دیگر کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ صدر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر پہلی سماعت 4 جنوری 2021 کو ہوئی تھی، جس کے بعد فروری سے اس پر روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔ عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی رائے مانگی تھی۔ ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔ صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔ آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، مزید یہ کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔ علاوہ ازیں مذکورہ آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button