ایک شہر اپنا اپنا سا!
ایک شہر اپنا اپنا سا!
تحریر : عطا ء الحق قاسمی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
عمان کا شہر مسقط مجھے اپنا دوسرا گھر لگتا ہے کہ یہاں قمر ریاض رہتا ہےاور یوں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ عمان میں آنے والے بہت سے سفیروں سے ملاقاتیں رہیں اور یوں یہاں کے حالات پتہ چلتے رہے ۔
علی جاوید سے لے کر اب عمران علی چودھری تک سب سے ملاقات رہی مگر جو کام اپنے مختصر دور میں عمران علی چودھری نے کئے ہیں اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی یہ سفارتکار کم اور خدمت گار زیادہ لگتے ہیں ان کا حالیہ کارنامہ سفارت خانہ پاکستان کے زیر انتظام بزنس ایکسپو ہے جہاں انہوں نے پاکستانی کمپنیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت عمان بلایا اورکم و بیش ستر پاکستانی کمپنیاں اپنی مصنوعات اس ایکسپو میں لے کر پہنچیں اور عمان سے مالا مال ہوکر واپس پاکستان لوٹیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دو دن کی اس ایکسپو میں کم و بیش پندرہ سے بیس ملین ڈالر کی پاکستانی مصنوعات کے آرڈر کنفرم ہو چکے ہیں اور اب یہ سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر چل نکلے گا۔
مجھے بھی اس ایکسپو میں بطور مشاہدگان مدعو کیا گیا، عامر حمزہ نے آنے سے پہلے فون پر مجھ سے کہا آپ تشریف لائیں آپ کا تعارف ہم کروائیں گے کہ سابقہ سفیر برائے ناروے ، تھائی لینڈ آئے ہیں تو میں نے اس کے جواب میں اسے سمجھایا کہ چونکہ میں بزنس ایکسپو میں شرکت کرنے آ رہا ہوں تو یہ مت کہنا بلکہ کہنا’’ پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل کے مالک جناب عطاء الحق قاسمی بھی اس ایکسپو میں شریک ہیں‘‘۔
بہرحال میرے سمیت بطور مشاہدگان ٹی وی اینکر نصراللہ ملک، علی حیدر، رحما عرفان ملک،گوہر رشید بٹ کے علاوہ میرے عزیز احمد نے بھی شرکت کی اور اختتامی سیشن پر ابھرتی ہوئی سنگر نمرا مہرہ کو بھی مدعو کیا گیا اس نے اپنی مدبھری آواز سے محفل کو ایک خوبصورت رنگ دیا۔
نصر اللہ ملک سے میری محبت کا رشتہ بہت پرانا ہے یہاں ان سےکھل کر ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شخصیت کے بہت سے دوسرے پہلو سامنے آئے۔
اس شخص کا نام فائز عیسیٰ تھا
بہرحال دوسرا بڑا کارنامہ عمران علی چودھری کا یہ ہےکہ پاکستانی اسکولوں کو خسارے سے نکال کر منافع میں کھڑا کردیا ہے اس کےلیے بلاشبہ چیئرمین اسکولز امیر حمزہ کی بھی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور تو اور حکومت عمان سے ان دونوں نے مل کر ایک نئے اسکول کی عمارت کےلیے بھی آٹھ ایکڑ جگہ حاصل کرلی ہے جس کا سنگ بنیاد ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر سالک حسین نے رکھا ہے اور اس پر پانچ ملین عمانی ریال کی خطیر رقم سے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسکول قائم کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے عمران علی چودھری کو عمان میں ہی سفیر رہنے دیا جائے کہ یہ بہت ضروری کام ہیں جن کےلیے ایسے ہی کسی جنونی آدمی کی ضرورت ہے۔
عمران صاحب ویسے بھی مجھے تھوڑا بہت پاگل لگتے ہیں اگر پاگل نہ ہوتے تو جمعہ کو چھٹی والے دن مزدوروں کےلیے سفارت خانہ کھولنے کا انتظام نہ کرتے، ضرورت مندوں میں پیسے تقسیم نہ کرتے، ایسے کام کوئی جنونی آدمی ہی کر سکتا ہے جسے پاکستان سے اور اپنے عام پاکستانیوں سے عشق ہو اور عمران علی چوہدری ایک عاشق آدمی ہے غصے کے بھی تیز ہیں مگر یہ غصہ انہیں بس اپنے تعمیری کاموں میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرنے والوں پر ہی آتا ہے، یہ تو ان کی خوش قسمتی ہے ان کی بیگم نورین سے ان کی شادی ہوگئی جو خود بھی اعلیٰ افسر ہیں اور ان کے ہر دکھ اور مشکل میں شانہ بشانہ ہیں۔
مجھے عمان سے محبت ہے اور اس کی ایک وجہ چوہدری محمد اسلم کی عمان میں موجودگی بھی ہے چوہدری اسلم تو سراپا محبت شخص ہیں ان کی دوستی سے انسان خود کو خوش قسمت سمجھنے لگتا ہے مگر مجھے اس بار شاعر مروت احمد کی کمی محسوس ہوئی کہ وہ عمان سے لندن جا بسے ہیں۔بہرحال دوستوں کی محفلیں یہاں بھی آباد رہیں۔دراصل قمر محفلیں آباد رکھنے کا ماہر ہے پاکستان بھی آتا ہے تو یہی کچھ ہوتا ہے، عمان تو ہے ہی اس کا اپنا۔ اس نے عمان میں دوستوں کا گلدستہ اکٹھا کر رکھا ہے،ان میں امیر حمزہ،سرفہرست ہیں ان کے علاوہ زاہد شکوہ، شاندار بخاری، ولیدشاہ، عامر حمزہ، عمران صدیقی، احمد قادری، عثمان، عدنان، یوسف مہر، ابراہیم، زیب حسن اور پتہ نہیں کون کون۔ ہر بار جب میں آتا ہوں اس کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ یہ دوستوں کےلیے فکر مند رہنے والا شخص ہے اسی کا ایک شعر ہے کہ:
ترے لئے یہ دل جو بہت فکرمند ہے
میں کیا کروں کہ دوست مجھے تو پسند ہے
آخر میں دو باتیں، ایکسی لینس علی عمران کے حوالے سے کہ وہ صرف اعلیٰ درجے کے منتظم ہی نہیں صف اول کے دانشور بھی ہیں، دو سال قبل مسقط ہی کی ایک تقریب میںتقریباً پونے دو گھنٹے پاکستان کے حوالے سے انتہائی خوبصورت اور عالمانہ تقریر کی تھی جس کے اثر سے میں ابھی تک نہیں نکل سکا۔ دوسری بات یہ ہےکہ یہاں مقیم پاکستانی،جن کا تعلق مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پی پی پی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی فکر سے ہے، ان کے درمیان کوئی کھچاؤ نہیں ہے، ان کے اپنے سیاسی نظریات ہیں مگر ایک نظریئے پر سب متفق ہیں اور وہ نظریہ پاکستان سے محبت ہے۔