افغان حکومت نے اسلام آباد میں سفیر کی تعیناتی کا اعلان کردیا ، امیر متقی کا جلد پاکستان کا دورہ متوقع

افغانستان نے پاکستان کی جانب سے کابل میں سفیر کی تعیناتی کاخیر مقدم کرتےہوئے پاکستان کے لیے بھی  اپنے سفیرکی تعیناتی کا اعلان کر دیا۔

یہ پیش رفت چین میں پاکستان،افغانستان اور چینی وزرائے خارجہ کی اہم ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے، گزشتہ روز پاکستان نےکابل میں اپنے ناظم الامورعبیدالرحمٰن نظامانی کو سفیر کا درجہ دیا تھا۔

واضح رہےکہ پاکستان نے 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغانستان میں اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔

یہ اقدام کابل کےساتھ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے اورافغان طالبان انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی اسلام آباد کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔

کابل میں پاکستان کےناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی کو سفیر مقرر کیا گیا ہے، ایک سفارتی ذرائع نے اشارہ دیا تھا کہ طالبان انتظامیہ بھی ممکنہ طور پراسلام آباد میں اپنے اعلیٰ نمائندے، مولوی سردار احمد شکیب، کو سفیر کے درجے پر فائز کر سکتی ہے۔

ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحٰق ڈار نے ’ایکس‘ پرسفیرکی تعیناتی کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے لکھا تھا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہےکہ حکومت پاکستان نےکابل میں اپنے ناظم الامور کے عہدے کو سفیر کے درجے پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

افغان نیوزآؤٹ لیٹ طلوع نیوز کے مطابق قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی پاکستان کی سرکاری دعوت پر اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

کابل اور اسلام آباد کےدرمیان تعلقات کو وسعت دینے کی جاری کوششوں کے سلسلے میں سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ امیر خان متقی آئندہ دنوں میں اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

یہ دورہ 3 دن پر محیط ہوگا اور دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر دو طرفہ امور پر توجہ مرکوز کرے گا۔

ذرائع کے مطابق، متقی کا یہ دورہ اعلیٰ سطح کے سفارتی روابط کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

پاکستانی نمائندے ٹیرف ڈیل کے لیے آئندہ ہفتے امریکا آرہے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ

 

اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سید عبد اللہ صادق نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں اور بین الریاستی ضوابط کی بنیاد پر دورے کیے جاتے ہیں، تاکہ مثبت نتائج حاصل کیے جا سکیں، اگرچہ افغانستان کو تاحال کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن ایک ہمسایہ اور مسلمان ملک ہونے کے ناطے، تاریخی تعلقات کی بنیاد پر افغان اور پاکستانی سیاستدانوں کے درمیان سیاسی مکالمے کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار اس دورے کو افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کے لیے اہم قرار دیتے ہیں، خاص طور پر جب کہ گزشتہ تقریباً چار برسوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات سرحدی جھڑپوں، افغان مہاجرین کی ملک بدری، اور سکیورٹی خدشات کے باعث کشیدہ رہے ہیں۔

ایک اور سیاسی تجزیہ کار خلیل ندیم نے کہا کہ پاکستان اب افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہے، کیوں کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، وہ سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ اچھے روابط رکھتا ہے، اور عرب ممالک کے ساتھ بھی مثبت روابط قائم ہیں، لہٰذا، پاکستان کو افغانستان کی ضرورت ہے اور اسی بنیاد پر افغان قائم مقام وزیر خارجہ کو مدعو کیا گیا ہے۔

Back to top button