فیض حمید کے بعد عمران خان کو بھی 9 مئی میں گھسیٹنےکی تیاری
آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنے دور اقتدار میں اختیارات کے ناجائز استعمال پر کورٹ مارشل کے لیے گرفتار کیے جانے کے بعد 9 مئی کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش تیار کرنے کے الزام میں سزائے موت کا سامنا ہے۔
فوجی ترجمان کے مطابق فیض حمید پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور اگلے چند ہفتوں میں انہیں سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔
اسلام آباد میں باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو 9 مئی کے حملوں کی سازش کے الزام میں سزا سنائی گئی تو عمران خان شدید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے چونکہ اگلی باری ان کی ہوگی۔ یاد ریے کہ جنرل (ر) فیض حمید، عمران خان کی حکومت میں بڑے طاقتور سمجھے جاتے تھے۔ عمران نے بطور وزیر اعظم اعتراف کیا تھا کہ ہر چیز کے لیے ان کا انحصار انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر تھا۔ انکی کمزور اتحادی حکومت کو بنانے سے لے کر پی ڈی ایم نامی اپوزیشن کو قابو کرنے تک، فیض حمید بطور ائی ایس ائی چیف وزیر اعظم عمران خان کے لیے ہر ڈیوٹی سرانجام دیا کرتے تھے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ فیض حمید کا کورٹ مارشل پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جس کا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ جاسوسی کرنے والے ادارے کے سابق طاقتور سربراہ اور ’بادشاہ گر‘ اب بغاوت کے الزامات میں فیلڈ کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔ فیض حمید پر اب باقاعدہ طور پر ریاست کی سلامتی اور مفادات کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان کا مقدمہ ایک فوجی عدالت میں چلایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ سطح کا یہ پہلا بغاوت کا مقدمہ ہے جس میں کسی سابق اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کو ملوث کیا گیا ہے، ایسے ملک جہاں زیادہ تر وقت فوج نے براہ راست یا بالواسطہ حکومت کی ہے۔ یہ مقدمہ پاکستانی سیاست میں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ سابق انٹیلی جنس چیف پر الزام ہے کہ انہوں نے ’سیاسی مفادات کے لیے ملی بھگت کے تحت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے‘ کی کوشش کی۔ یہ الزامات نہایت سنگین ہیں اور ان کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے وقت نے صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ تاہم اس سے بھی زیادہ اہم بات وہ پیغام ہے جو اس عمل کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔
زاہد حسین کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 26 نومبر کو اسلام آباد میں عمران خان کے حامیوں کے خلاف پرتشدد احتجاج کے چند دن بعد شروع ہوئی۔ اس احتجاج میں میں کئی افراد اپنی جان سے گئے جس میں رینجرز اور پولیس کے 5 جوانوں کے علاوہ تحریک انصاف کے 5 ورکرز بھی شامل تھ6۔ کئی مبصرین کے مطابق 24 نومبر کو اسلام اباد میں احتجاج کی کال دینے کا بنیادی مقصد فیض حمید کے خلاف شروع کی گئی کاروائی میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ لہذا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے سخت ترین رویہ اختیار کیا جسکے نتیجے میں احتجاجیوں کو اپنے جوتے اٹھا کر اسلام اباد کے ڈی چوک سے فرار ہونا پڑا۔
اس واقعے کے چند روز بعد فوج کے ترجمان نے بتایا کہ سابق انٹیلی جنس چیف پر گذشتہ سال نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر پرتشدد مظاہروں میں مبینہ ملوث ہونے کی بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔ ان مظاہروں میں ہجوم نے درجنوں فوجی تنصیبات پر حملے کیے، جن میں لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ اور راولپنڈی میں فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹرز شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے متعدد حامیوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کے ساتھ ساتھ، 9 مئی کے واقعے کے نتیجے میں فوج کے اندر بھی بڑے پیمانے پر تطہیر ہوئی۔
فوجی ترجمان کے مطابق سو سے زیادہ فوجی افسروں، جن میں لاہور کے کور کمانڈر بھی شامل ہیں، کو اس واقعے میں مبینہ کردار کے سبب برطرفی یا تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے چند ماہ بعد پیش آیا۔ وہ اس وقت سے زیر نگرانی تھے جب انہوں نے آرمی چیف کی دوڑ میں ناکامی کے بعد فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل فیض حمید، جو ایک متنازع انٹیلی جنس چیف رہے ہیں، اپنی ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مسلسل توجہ کا مرکز بنے رہے۔ ان پر ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں ملوث ہونے کی تحقیقات ہو رہی تھی لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں سے متعلق الزامات زیادہ سنگین معلوم ہوتے ہیں۔ ان پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
یاد عیے کہ فیض حمید کو 2017 سے اس وقت شہرت ملی جب وہ ٹو سٹار جنرل کے طور پر آئی ایس آئی میں سیاسی امور کے انچارج بنے۔ انہیں 2019 میں عمران کی حکومت کے دوران آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا۔ 2017 میں ہی ان پر ہاؤسنگ سوسائٹی سکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام لگا جس کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر اس سکیم کے مالکان کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر چھاپے مارنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ واضح طور پر اختیارات کے مجرمانہ غلط استعمال کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس وقت ان کے خلاف کوئی ’داخلی احتسابی عمل‘ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس انہیں تھری سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔
عمران خان کی حکومت کے دوران وہ انتہائی طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرے۔ سابق وزیراعظم نے بعد میں تسلیم کیا کہ وہ انٹیلی جنس ادارے پر ہر بات کے لیے انحصار کرتے تھے، چاہے وہ نازک حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنا ہو یا اپوزیشن کو قابو میں رکھنا۔ یہی وجہ تھی کہ عمران نہیں چاہتے تھے کہ فیض حمید 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑیں۔ تاہم جنرل فیض حمید کوئی منفرد شخصیت نہیں۔ ملک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کا عہدہ کسی بھی شخص کو بے پناہ طاقت دیتا ہے اور ماضی کے بیشتر سربراہان پر بھی سیاسی مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ جنرل فیض حمید اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان کی اس سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں ہو رہا ہو جو طاقت کے کھیل میں مسلسل ملوث رہی ہے۔ ان کا کیس شاید اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ ایک ایسے نظام کی پیداوار ہیں جو اپنے عہدے داروں کو وسیع اختیارات دیتا ہے۔