عمران کی ناکامی کے بعد اب اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے
معروف صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ یہ تسلیم کرتے ہوئے اب پیچھے ہٹ جائے کہ اسکا تیسری قوت کے طور پر عمران خان کو سلیکٹ کرنے اور وزیراعظم بنانے کا تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ایک قدآور وزیراعظم کی عدم موجودگی میں پاکستان عالمی سطح پر بھی کمزور ہو ہوا ہے اور اس وقت امریکا اور انڈیا کیساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی شخصیت کی بطور وزیراعظم ضرورت ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں اہم ملکی معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو ایک ایسے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے جو ملک کو بچانے کے ساتھ عوام کو بھی بچا سکے۔ لیڈر ایسا ہو عوام جس کے ساتھ ہوں اور وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر چلے۔
نجم سیٹھی نے حال میں تشکیل دی جانے والی قومی سلامتی پالیسی کو خفیہ رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کے سامنے لایا جائے۔ نئی سیکیورٹی پالیسی میں بتایا جا رہا ہے کہ ہم واپس امریکا کی گود میں جانا چاہ رہے ہیں۔ لیکن چین کو یہ چیز پسند نہیں آئے گی۔ سیٹھی کا کہنا تھا کہ بھارت کیساتھ پس پردہ معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسی چیزیں لین دین کیساتھ طے ہوتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ کچھ دینے کو تیار ہیں یا صرف لینا ہی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا انڈیا چپ کرکے اس موقع کو جانے دے گا جب وہ سمجھتا ہے کہ آپ کمزور ہو چکے ہیں کشمیر بھی آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ انڈیا کیساتھ تعلقات نارمل کرنے کی کوشش کی جائے، دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے لیکن انہوں نے بات نہیں مانی۔
انکا کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں امریکا کیساتھ تعلقات کو اہم نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ ایشو اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا فارن پالیسی چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات امریکا کی آشیرباد کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اگر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے تو اس کیلئے بھی امریکا کی ہی مدد درکار ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو بھی امریکہ سے فراغت کے بعد اب یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ طاقتور ملکوں سے تعلقات بگڑنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
سیٹھی کا کہنا تھا کہ امریکا کیساتھ تعلقات کی بحالی کا چیلنج عمران خان، معید یوسف یا شاہ محمود قریشی قبول کر بھی لیں تو اسے پورا نہیں کر سکتے۔ یہ چیلنج اگر کوئی قبول کر سکتا ہے تو وہ صرف ایک ہی اعلیٰ شخصیت یے جو اب امریکی یاترا کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے، تاہم ابھی تک حتمی تاریخ نہیں آئی۔ صرف ان کے جانے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر پڑی برف پگھلے گی۔
کیا پاک بھارت تعلقات میں بڑا بریک تھرو ہونے جارہا ہے؟
پاک چین تعلقات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے عمران حکومت آئی ہے چین ہم سے ناراض ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے سی پیک کی طرف توجہ نہیں دی، اس لئے یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ اقتصادی راہداری چین کیلئے بہت اہمیت کا حامل پراجیکٹ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زرداری اور نواز حکومت نے چین کیساتھ جو سی پیک معاہدے کئے تھے ان میں گارنٹی دی گئی تھی کہ انھیں پبلک یا تھرڈ پاور کو نہیں دکھایا جائے گا لیکن حکومت نے سارے کے سارے اٹھا کر آئی ایم ایف کو دکھا دیئے۔ آئی ایم ایف اور امریکا کا پہلے سے ہی پراپگینڈا چل رہا ہے کہ چین پاکستان کو جس ریٹ پر قرضے دے رہا ہے ان کی واپسی ناممکن ہے آپ ایک ڈیتھ ٹریپ میں جا رہے ہیں۔
وزیراعظم کے دورہ چین اور قرض ملنے کی باتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان معاشی حالات میں کوئی بھی ملک پاکستان کو بیل آئوٹ نہیں کر سکتا۔ صرف ایک دو بلین ڈالرز کیساتھ پاکستان کے مسئلے حل نہیں ہونگے۔ چین نے تو پہلے بھی ہمیں لگ بھگ 3 ارب ڈالر دیئے ہوئے ہیں۔ جو وہ کسی وقت بھی نکال سکتے ہیں۔ پاکستان پر چین کا 10 بلین ڈالرز قرض چڑھا ہوا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے اپوزیشن کیخلاف کیسز میں ان کی دھجیاں اڑا دی تھیں لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی کسی پریشر میں نہیں آئیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سائیڈ لینا انصاف لینے والا راستہ نہیں ہے۔
نئے چیف جسٹس کو مثال قائم کرنی چاہیے۔ ان کے سامنے بہت اہم کیسز آنے والے ہیں۔ اب زیادہ تر کیسز حکومت کیخلاف آئیں گے۔ گذشتہ چار سالوں میں جو نہیں ہوا، وہ اب ہونا شروع ہو جائے گا۔ اب تو نیب چیئرمین کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ اور پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بلایا جا رہا ہے۔