عمران کے تازہ حملے کے بعد فوج سے بات چیت کادروازہ دوبارہ بند
آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کےبعد بیرسٹر گوہر خان اور وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی جانب سے فوج مخالف جارحانہ رویہ ترک کرنے کا مشورہ سختی سے رد کرتے ہوئے عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی ٹوکوں کا رخ فوجی قیادت کی طرف کر دیا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بھی بند ہونے جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کرپشن کیس میں عدالت کی جانب سے 14 برس قید با مشقت کی سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان نے ایکس پر اپنی تازہ ترین پوسٹ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو ہدف بناتے ہوئے اس کا موازنہ جنرل یحیی خان کے ساتھ کر ڈالا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عمران خان کے اس عمل سے پی ٹی آئی کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے جاری مذاکرات اب بند گلی میں داخل ہو گئے ہیں جن کے آگے بڑھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بالواسطہ جنرل عاصم منیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا موازنہ پاکستان توڑنے والے جنرل یحیٰی خان سے کیا ہے۔ ایک سینئر پی ٹی آئی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انصار عباسی سے گفتگو میں افسوس کا اظہار کیا۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے قریب ایک قریبی ساتھی نے انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے عمران سے اپنی آخری ملاقات میں بانی سے درخواست کی کہ وہ فوج اور اس کی قیادت پر حملے کرنے سے گریز کریں کیونکہ حالیہ بیک چینل ڈائیلاگ کے عمل میں پیش رفت ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر گوہر نے بھی عمران خان کو اسی طرح کی درخواست کی لیکن اسکے باوجود پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک سخت بیان جاری کیا گیا۔ عمران خان کو انکے پارٹی رہنماؤں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ پی ٹی آئی کی اوورسیز شاخ کو فوج مخالف مہم چلانے سے روکا جائے۔
ذرائع کا کہنا یے کہ عمران خان سے ایسی کئی درخواستیں پہلے بھی کی گئیں لیکن وہ سب بے اثر ثابت ہوئیں۔ گنڈا پور اور گوہر خان نے حال ہی میں پشاور میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی۔ عمران خان نے خود اس پیش رفت کی تصدیق کی تھی اور اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔
زیادہ تر پی ٹی آئی رہنما اس پیش رفت پر خوش تھے اور امید رکھتے تھے کہ بیک چینل بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور پی ٹی آئی کے لیے کچھ ریلیف لائے گا۔ لیکن جمعہ کو عمران خان کی X اکاؤنٹ پر کی گئی ٹویٹ نے پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو مایوس کیا۔ پارٹی میں یہ بھی بحث ہوئی کہ خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو کس طرح روکا جائے تاکہ جو کچھ پی ٹی آئی نے طویل عرصے میں حاصل کیا ہے، وہ برباد نہ ہو۔پی ٹی آئی حالیہ پیش رفت کے بعد بیک چینل ملاقاتوں کی توقع کر رہی تھی لیکن اب وہ اس بات کا یقین نہیں کر پا رہی کہ عمران کی تازہ ترین ٹویٹ کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کیسے رد عمل ظاہر کرے گی۔
17 جنوری 2025 کو عمران خان کا £190 ملین کیس میں سزا کے بعد کا پیغام ان کے X اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا گیا۔ ان کے پیغام میں قوم سے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے کی اپیل کی گئی ہے۔انکا کہنا ہے کہ 1971 کی تاریخ پاکستان میں دہرائی جا رہی ہے۔ یحییٰ خان نے ملک تباہ کر دیا، اور آج، آمر اپنی آمریت اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے وہی کر رہا ہے، ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت کو احساس ہے کہ اگر عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنا جارحانہ رویہ جاری رکھا تو یہ بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچائے گا –
عوامی اور بیک ٹی وی چینل دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ عمران کی ایک پہلے کی جارحانہ ٹویٹ نے پہلے ہی مذاکراتی عمل کو جھٹکا دیا تھا۔ یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد عمران خان ایسا کریں گے لیکن انہوں نے پھر ایسا کر دکھایا۔
ماضی میں عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے جارحانہ استعمال کے باعث، پی ٹی آئی رہنماؤں میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کنٹرول پاکستان منتقل کر دیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انہیں آگ بھڑکانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
ایک پی ٹی آئی رہنما کے مطابق، ان اکاؤنٹس کو بیرون ملک سے کنٹرول کرنے والے لوگ عمران خان کے خیالات کو مبالغہ آمیز بنا دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ خان نے کبھی ایسے عناصر کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر فوجی قیادت کو ٹارگٹ کر دیا ہے۔