عمران خان کو سزا کے بعد مذاکرات کا کھیل ختم ہونے کا امکان
190ملین پاؤنڈز میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو لمبی سزائیں سنائے جانے کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین جاری مذاکراتی عمل ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مبصرین کے مطابق 190 ملین پاؤنڈز کیس میں عمران خان کو 14 سال جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید بامشقت نے بانی پی ٹی آئی کی پارسائی اور معصومیت کا پردہ فاش کر دیا ہے، عدالت نے دستاویزی ثبوتوں کی بنا پر نہ صرف عمران خان کو کرپٹ اور بددیانت قرار دے دیا ہے بلکہ استغاثہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوتوں کو ٹھوس، مستند،مربوط، ناقابل تردید اور قابل اعتماد بھی قرار دے دیا ہے۔ جس کے بعد سابق وزیر اعظم کو مستند بددیانت قرار دیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے 190ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد جہاں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو تحویل میں لیا جا چکا ہے وہیں سیاسی حلقوں میں اس فیصلے کے اثرات کے حوالے سے بھی بحث زوروں پر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب مذاکراتی عمل کے تیسرے سیشن میں پی ٹی آئی اپنے تحریری مطالبات حکومت کے حوالے کر چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق 190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ آنے کے بعد فریقین میں پائی جانے والی بد اعتمادی میں مزید اضافہ ہو گا اور امکان یہی نظر آتا ہے کہ اب مذاکراتی عمل کا چوتھا سیشن کبھی بھی نہیں ہو گا اور مذاکرات کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گی۔
دوسری جانب مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل میں پاکستان تحریک انصاف کے دو ابتدائی مطالبات سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کے پاکستان تحریک انصاف کیلئے کیا مطالبات ہیں؟ پاکستان تحریک انصاف کے پاس حکومت کو دینے کیلئے کیا ہے؟ کیا پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم کو ختم کرنے پر راضی ہو جائے گی؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پی ٹی آئی کے مطالبات کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے کئی کارکن تو پہلے ہی رہا ہو چکے، کچھ کے معاملات عدالتوں میں ہیں، کچھ کو سزا ہو چکی، ایسے میں اس مطالبے کو جزوی طور پر قابلِ عمل کہا جا سکتا ہے، دوسرا مطالبہ‘ جو جوڈیشل کمیشن کے قیام سے متعلق ہے، کیا پاکستان تحریک انصاف یہ لکھ کر دینے کو تیار ہوگی کہ کمیشن کی رپورٹ کی فائنڈنگ کو وہ ہر حال میں تسلیم کرے گی؟ اگر تحریک انصاف ایسا کرنے کیلئے رضا مند ہو جاتی ہے تو وہ مستقبل میں اپنے ہی مطالبے کے پھندے میں پھنس سکتی ہے۔ تاہم یہ ساری معاملات اس وقت زیر بحث آ سکتے ہیں جب مذاکراتی عمل آگے بڑھتا ہے تاہم عدالتی فیصلے کے بعد مذاکراتی عمل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
خیا ل رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سابق وزیراعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر 190 ملین پاؤنڈ کی رقم‘ جو کہ حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھی‘ اسے کابینہ کو گمراہ کر کے غلط مد میں ایڈجسٹ کیا اور اس کے عوض 458 کنال اراضی اور رقم اور دیگر فوائد حاصل کئے، یہ رقم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق حکومتِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے کابینہ سے بند لفافے میں منظوری لے کر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ذمہ واجب الادا رقم کی مد میں ایڈجسٹ کر دیا گیا۔اس فائدے کے بدلے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے مبینہ طور پر القادر یونیورسٹی کے لئے عطیات کی مد میں 458 کنال اراضی کے ساتھ ساتھ 28 کروڑ روپے سے زائد رقم بھی ملک ریاض سے حاصل کی، بانی پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور بشریٰ بی بی نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی ٹرسٹی بن کر اس میں سہولت کاری کی، صرف یہ نہیں بلکہ موہڑہ نور بنی گالہ کے قریب 240 کنال سے زائد زمین بھی حاصل کی گئی۔
کرپشن کیس میں عمران کی القادر یونیورسٹی بھی حکومتی تحویل میں چلی گئی
واضح رہے کہ القادر یونیورسٹی پراجیکٹ 26 دسمبر 2019ء کو عمران خان، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری اور ظہیر الدین بابر اعوان کے ساتھ بطور ٹرسٹ رجسٹر ہوا، دس جولائی 2020ء کی ترمیم کے مطابق اس وقت صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی اس کے قانونی ٹرسٹیز ہیں۔