پاڑہ چنار میں شیعہ سنی فساد کے بعد پیناڈول کی گولی بھی دستیاب نہیں
خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں حالیہ فرقہ وارنہ فسادات میں 200 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد سے نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث کُرم کے صدر مقام پاڑہ چنار جانے والی رابطہ سڑکیں مسلسل بند ہیں۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ علاقے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور پیناڈول سمیت بنیادی ادویات بھی سرے سے میسر ہی نہیں۔
بی بی سی کی ایک خصوصی ٹیم نے حال ہی ضلع کرم کا دورہ کیا اور اپنی انکھوں سے وہاں کی صورتحال دیکھی۔ رپورٹرز کے مطابق چنار کے درختوں اور سفید پہاڑوں میں گھرے پاڑہ چنار کی خوبصورتی فرقہ وارنہ کشیدگی کے باعث ماند پڑ چکی ہے۔ وہاں نظر آنے والے مناظر اور مقامی افراد سے بات چیت یہ باور کروانے کے لیے کافی تھی کہ یہاں کی آبادی کو نہ صرف سکیورٹی خدشات لاحق ہیں بلکہ انھیں ادویات، کھانے پینے کی اشیا اور انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ کے حصول میں بھی انتہائی دشواریوں کا سامنا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کرم کے مرکزی بازار میں ایک شخص بچے کا فیڈر اٹھائے دُکانوں پر گھوم رہا تھا تاکہ اس پر لگے نپل کو خرید سکے مگر اشیا کی عدم دستیابی کے باعث اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔ ایسے ہی مناظر پاڑہ چنار کے مرکزی سرکاری ہسپتال میں نظر آئے جہاں ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف تو موجود تھا لیکن وہ ادویات کی قلت کے سبب مریضوں کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔
یاد رہے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر اکتوبر 2024 میں تب شروع ہوئی تھی جب سُنّی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسی طرز کا ایک حملہ شیعہ مکتبہ فکرِ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کے بعد متعدد علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں کئی افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شیعہ اور سُنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ دو مہینوں سے بند ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاڑہ چنار کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ سید میر حسن جاں نے تصدیق کہ سڑک کی بندش کی سبب ادویات اور دیگر اشیا نہ پہنچنے کے سبب گذشتہ دو ماہ میں 29 بچوں کی اموات ہو چکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’جب سڑک بند ہو جاتی ہے تو بہت سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہماری سپلائی لائن کٹ جاتی ہے خاص طور پر ادویات کی اور اس کے ساتھ آکسیجن کی بھی۔‘ سب سے بڑا مسئلہ ان مریضوں کو ہوتا ہے جو سیریس ہوتے ہیں اور جنھیں بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
بی بی سی کی ٹیم نے ادویات اور دیگر غذائی اشیا کی قلت کی وجہ جاننے کے لیے علاقے کے بازار کا چکر لگایا تو وہاں واقع میڈیکل سٹورز بھی خالی نظر آئے۔ خورشید انور کرم میں ادویات کی ہول سیل کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’اگر ہول سیلر ہوتے ہوئے میری دُکان خالی ہے تو سوچیں عام میڈیکل سٹورز کی کیا حالت ہو گی؟‘ ’یہاں اینٹی بائیوٹکس نہیں ہیں، زندگی بچانے والی ادیات نہیں ہیں، انسولین بالکل نہیں مل رہی۔ بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں بھی ناپید ہیں۔‘ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن بھی وہاں ایئر ایمولینس کے ذریعے ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن فیصل ایدھی کے مطابق یہ ایک ’عارضی حل‘ ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم تو یہاں زندگی بچانے والی ادویات اور ویکسین لے کر آئے تھے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں تو پیناڈول کی گولی تک دستیاب نہیں۔‘
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عام حالات میں پاڑہ چنار کے بازار میں خاصی رونق ہوا کرتی ہے لیکن جب بازار ہی بنیادی اشیائے ضروریہ سے خالی ہوں تو لوگ وہاں آ کر کیا کریں گے۔ علاقے کا دورہ کرنے والے ایک رپورٹر کے مطابق وہاں ہم نے ایک پیٹرول پمپ بھی دیکھا جو کہ پیٹرول نہ ہونے کے سبب بند تھا اور اس کی بندش کے باعث پورے علاقے میں شہریوں کو نہ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی معطل ہے بلکہ اس سے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اہلیانِ علاقہ سے بات کر کے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہاں گیس اور لکڑیاں بھی ناپید ہو چکی ہیں جس کے سبب سخت سردی میں نہ تو گھروں کو گرم رکھنا ممکن ہے اور نہ کھانا بنانا۔ یہی نہیں بلکہ سڑک کی بندش کے سبب پاڑہ چنار میں مرغی کا گوشت اور انڈے بھی دستیاب نہیں۔ علاقے کے دُکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس فروخت کرنے کے لیے صرف وہی سبزیاں موجود ہیں جو علاقے میں اُگائی جاتی ہیں۔
بازار میں جیمل حسن نامی دُکاندار نے بی بی سی کی ٹیم کو بتایا کہ یہاں ’چنا، ماش کی دال، مسور کی دال سب ختم ہو چکی ہیں اور چینی اور گھی بھی نہیں ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ بازار میں بچوں کے کھانے کی اشیا جیسا کہ خشک دودھ اور سیرلیک تک دستیاب نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاڑہ چنار کے آس پاس واقعے سُنی علاقے بھی سڑک کی بندش سے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بھی اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے پاڑہ چنار کے بازاروں کا ہی رُخ کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت ضلع کُرم میں جاری کشیدگی کا ایک ذمہ دار پڑوسی ملک افغانستان کو بھی قراد دیتے ہیں۔ کرّم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملوں اور پھر قبائلی لشکر کی جانب سے متعدد مقامات پر لشکر کشی اور آتشزنی کے واقعات کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ‘یہ فرقہ وارانہ جھگڑا پاڑہ چنار سے باہر آ رہا ہے، جس کی افغانستان سے باقاعدہ پشت پناہی ہو رہی ہے اور طالبان سرحد پار کر رہے ہیں۔’
یاد ریے کہ ضلع کُرم کا علاقہ پاڑہ چنار افغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے اور جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے لوگوں نے کُرم میں بھی نقل مکانی کی۔ جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2000 کے وسط میں ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا تو ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے اور پاڑہ چنار جانے والی سڑک کو کھلوانے کی کوشش تو کر رہی ہیں لیکن اب تک انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔