الطاف حسین کا عمران خان کو فوج سے لڑائی بند کرنے کا مشورہ
لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے اڈیالہ جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو بذریعہ خط واضح کیا ہے کہ اگر انہیں کسی صورت جیل سے رہائی مل جائے اور وہ دوبارہ اقتدار میں آ بھی جائیں تو فوجی اسٹیبلشمنٹ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کو معافی لیتے لیتے 30 سال لگ گئے لیکن اب بھی اس پر شک کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو معافی تب ملی جب اس کی سیاست ہی معدوم ہوگئی، لہٰذا آپ کو بھی جان دینا پڑے گی پھر معافی ہو گی۔ یاد رکھیں بھٹو نے کہا تھا کہ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ کبھی بھولتا نہیں ہے۔
دراصل یہ تصوراتی اور تخیلاتی خط سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے الطاف حسین کی جانب سے عمران خان کے نام لکھا ہے۔ آئیے آپ کو یہ خط تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
آداب، تسلیمات، آج آپ کی یاد نے بہت ستایا اس لئے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا کہ آپ سے کھل کر دل کی باتیں کروں۔ آپ ہوں یا میں، ہم دونوں کے بہت سے دکھ مشترک ہیں۔ آج آپ مقبول ہیں تو کبھی میں بھی کراچی اور حیدر آباد میں آپ سے زیادہ مقبول تھا۔ آپ کو تو لوگوں نے صرف ووٹ دیئے، میرے لئے لوگ جان لے بھی لیتے تھے اور دے بھی دیا کرتے تھے۔ کراچی کے لوگ میری روحانی بلندیوں سے واقف تھے اور اسلئے مجھے پیر صاحب بھی کہا جاتا تھا۔ یہی مرتبہ اور مقام آپ کا بھی ہے۔ آپ کی تو اہلیہ خود پیرنی ہیں، ہم دونوں کا آغاز بھی ایک جیسا ہے اور خدا نہ کرے انجام بھی ایک جیسا ہو۔
الطاف حسین لکھتے ہیں کہ مجھے بھی شروع میں فوج نے گود میں اٹھائے رکھا کیونکہ شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کا پتہ صاف کرنا تھا۔ آپ بھی فوجی ٹکسال کے وہ سکے ہیں جسے فوج نے پیپلز پارٹی اور نون کو گندا کرنے کے لیے بنایا اور انکے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کروایا تاکہ وہ بدنامی کے گڑھے میں دفن ہو جائیں۔ لیکن ہم دونوں کو کسی کی نظر لگ گئی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہو۔ ہم دونوں کے مابین بہت غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔ آپ نے بھائی لوگوں کے ایما پر میرے خلاف لندن پہنچ کر مقدمات کئے، مجھے علم ہے کہ آپ کو سارا مواد طاقتوروں نے دیا تھا اس وقت آپ ان کا مائوتھ پیس بنے ہوئے تھے۔ اب آپ اور میں دونوں ہی فوج کے ناپسندیدہ بن چکے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے تخیلاتی خط کے مطابق الطاف حسین عمران خان کو مزید لکھتے ہیں کہ ایک زمانے میں میرے انگلی کے اشارے پر پورا کراچی بند ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن اب میں لوگوں کو چیخ چیخ کر، اور رو رو کر التماس کرتا ہوں مگر وہ میری بات پر عمل نہیں کرتے۔پہلے یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں گھنٹوں میری تقریریں سنا کرتے تھے اور اب 100سے زیادہ میرے سامعین نہیں ہوتے، مجھے علم ہے کہ لوگ آپ کی ادائوں پر جان نچھاور کرتے تھے۔ آپ نے پشاوری چپل کیا پہنی، اچھے خاصے آرام دہ جوتے چھوڑ کر انصافیوں نے کپتان چپل اپنا لی۔ لیکن اب میں نے نوٹ کیا ہے کہ آپ کیلئے خون دینےکا دعویٰ کرنے والے اکثر یوتھیے آپ کی مسلسل احتجاجی کالز کے باوجود گھروں تک سے نہیں نکلے۔
الطاف حسین لکھتے ہیں کہ مجھے علم ہے کہ کراچی میں میرے ووٹ اب بھی اکثریت میں ہیں لیکن وہ میرے لئے باہر نکلنے کو تیار نہیں، ایسی خاموش اکثریت جائے بھاڑ میں جو حامی تو ہوتی ہے لیکن قربانی نہیں دیتی۔ آپ کا بھی یہی حال ہے۔ آپ کے ووٹرز بہت ہیں لیکن یہ وہ خاموش اکثریت ہے جو کبھی آپ کیلئے گھر سے باہر نہیں نکلے گی، آپ کی ووٹ پاور تو ہے لیکن سٹریٹ پاور نہیں ہے۔ بھائی ! گو ہماری کبھی آپس میں بنی نہیں لیکن قدرت کا حسین اتفاق ہے کہ ہماری ایک اور قدر مشترک ہے۔ آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی لندن میں رہتے ہیں اور وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، میری اکلوتی بیٹی بھی لندن میں رہتی ہے اور مجھ سے باقاعدہ ملنے آتی ہے، میں نے سنا ہے کہ اب آپ کا اپنے بچوں سے رابطہ نہیں ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اپنے کسی خاص بندے کے ذریعے بچوں سے آپ کا مستقل رابطہ کرا سکتا ہوں۔ اس حوالےسے جب بھی میری خدمت کی ضرورت ہو آپ اشارہ کریں گے تو یہ کام ہو جائے گا۔
سہیل وڑائج کے تخیلاتی خط میں الطاف حسین اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کو لکھتے ہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا، میں جو کبھی شہری سندھ کا بے تاج بادشاہ تھا، آج لندن میں اپنی سیاسی تنہائی کے دن گزار رہا ہوں اور آپ جو کبھی پورے عالم اسلام کے عظیم لیڈر کہلوانا چاہتے تھے آج اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی میں بند ہیں۔ اس عروج اور زوال پر لوگ طنز بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا دائمی اور سب سے بڑا گناہ اپنے ہی خالق سے لڑائی کرنا ہے۔ لوگ بار بار یاد دلاتے ہوں گے آپ دونوں کو فوج نے پیدا کیا، آپ کی پرورش کی، اقتدار دلوایا لیکن آپ انہی سے لڑ پڑ جو سراسر بے وقوفی تھی۔ مجھے یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ میں مقبولیت کے تکبر میں آ گیا اور صرف ’’میں‘‘ کو اہمیت دیتا رہا۔ لہٰذا میری "میں” مجھے مقبولیت سے کہیں دور لے گئے اور میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔
الطاف حسین لکھتے ہیں کہ قسمت بھی عجیب چیز ہے۔ اس زندگی میں انسان کو کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے یہ فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، مقبول صدیقی سب صرف میرا دم بھرتے تھے اب ہر روز میرے خلاف بیان دیتے ہیں، مجھےسیاسی لاش بنا کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی وفادار نہیں نکلا، کوئی بھی دلدار نہیں ہے سب غدار ہی غدار ہیں۔ عمران بھائی آپ کا المیہ بھی یہی ہے کہ آپ کی ٹیم بھی بظاہر آپ کا دم بھرتی ہے مگر اندر سے اس کی تاریں کہیں اور ملی ہوئی ہیں آپ کو غلط رپورٹیں دی جاتی ہیں۔ آپ کو سچ نہیں بتایا جاتا بلکہ چھپاپا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل وقت آیا تو بھٹو کے دو قریبی ساتھیوں حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو نے نئی شادیاں رچالیں۔ میرا مشکل وقت آیا تو میرے سارے ساتھی مجھے پاگل قرار دینے لگے حالانکہ یہی لوگ پہلے گھٹنوں بیٹھ کر میرے لیکچر سنا کرتے تھے، پہلے یہ میری دانش کو بصیرت کہتے تھے اور اب کہتے ہیں کہ اس نے تو ہمیں مروا دیا۔
عمران بھائی، کچھ ایسی صورت حال آپ کو بھی درپیش ہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اب آپ کی دانش اور قوت فیصلہ پر شک کرتی ہے، آپ کو اپنے اقتدار کے راستے کی رکاوٹ سمجھتی ہے، فی الحال ان سب کو آپ کے ووٹ بینک کی ضرورت ہے اسلئے آپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں مگر ذہنی طور پر آپ سے دور جا چکے ہیں۔ میرے اور آپ کے دکھ مشترکہ ہیں ،ہم دونوں کو فوج کی ناراضی کا سامنا ہے ، میرا تو انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا، نہ گھر بار، نہ ساکھ اور نہ ووٹر، اب آپ کے پیچھے ہیں اگر آپ کی مصالحت نہ ہوئی تو پھر تیار رہیں، نہ گھر بار رہے گا، نہ شادی رہے گی اور نہ ہی ساکھ اور ووٹر۔
پی ٹی آئی انتشار کا شکار: کئی یوتھیے رہنما پارٹی چھوڑنے کو تیار
اس کے بعد الطاف حسین عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ فوج اور اس کی قیادت سے لڑائی ترک کردیں اور پہلے کی طرح ان سے ’’اک مِک‘‘ہو جائیں ورنہ آپ کی پارٹی توڑنے، نئے الزامات لگانے، پختونخوا حکومت کا خاتمہ کرنے سمیت دیگر اقدامات کی تیاری کی جارہی ہے۔ ویسے بھی جس لشکر کے ساتھ آپ مل کر لڑنے کا سوچ رہے ہیں اس کا ایک ایک سپاہی آپ کے دشمنوں سے ملا ہوا ہے، وقت آنے پر آپ کو سب کچھ خود معلوم ہو جائے گا۔ آخر میں عرض ہے کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو، مذاکرات ہوں نہ ہوں، یہ بات یاد رکھنا کہ آپ کو حکومت بھی مل جائے تو آپ کو مقتدرہ سے معافی ملنا مشکل ہے، پیپلز پارٹی کو معافی لیتے لیتے 30 سال لگ گئے اب بھی اس پر شک کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو معافی تب ملی جب اس کی سیاست ہی معدوم ہوگئی ،آپ کو بھی زندگی دینا پڑے گی پھر معافی ہوگی۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ بھولتا نہیں ہے۔