صدر علوی اور گورنر چیمہ آئین شکنی کے راستے پر گامزن

کپتان کے آئین شکن ساتھیوں صدر عارف علوی اور گورنر پنجاب عمر چیمہ کی جانب سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کے بعد حلف کا معاملہ مزید لٹک گیا ہے اور پنجاب کا آئینی بحران شدید تر ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے صدر عارف علوی کو ہدایت کی تھی کہ وہ گورنر پنجاب کو فوری طور پر کوئی آئینی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم دیں جو حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے۔

اس عدالتی حکم کے بعد ہفتے کو یہ افواہ اڑی کہ چیرمین سینٹ صادق سنجرانی لاہور پہنچ کر حمزہ شہباز سے حلف لیں گے۔ لیکن جب چیئرمین سینٹ صدر علوی سے ملے تو انہیں ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ یوں اب پنجاب 24 روز سے بغیر کسی وزیراعلی کے چل رہا ہے۔ دوسری جانب صدر عارف علوی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا حکم نامہ ابھی زیر غور ہے۔

اسی دوران پچھلے تین روز سے پیچش کے باعث اسپتال میں داخل ہونے کے باوجود گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے صدر عارف علوی کو پانچ صفحوں پر مبنی ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے نئے وزیر اعلی کے انتخاب کو غلط اور غیر آئینی قرار دیا ہے تاکہ صدر عارف علوی کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ چھ صفحات پر مبنی اس خط میں انہوں نے صدر کو لکھا ہے کہ صوبے میں تب سے آئینی بحران جاری ہے جب وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے عہدے سے استعفٰی دیا تھا۔  انہوں نے لکھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا عہدہ آئینی ہے اور بہت ہی زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’میں بطور گورنر نئے وزیراعلیٰ کا حلف لینے سے گریز کر رہا ہوں جس کی میرے پاس آئینی وجوہات ہیں۔‘

گورنر پنجاب نے مزید لکھا کہ ’لاہور ہائی کورٹ میں دائر پیٹیشن کے فیصلے کے پیرا گراف چار کے تحت یہ معاملہ آپ کو سونپا گیا ہے بلکہ ایک طریقے سے حکم دیا گیا ہے کہ میرے حلف نہ لینے کی وجوہات کو آپ ریکارڈ کریں۔ میرے خیال میں یہ درست بات نہیں ہے۔‘ وجوہات تحریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے جب وزیراعلٰی کے انتخاب کا حکم دیا تو اس میں لکھا کہ اس انتخاب کو آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے مکمل کیا جائے جبکہ ڈپٹی سپیکر کو یہ آئینی عمل پورا کرنے کے لیے پورے طرح اختیارات دیے گئے۔ تاہم میرے خیال میں وزارت اعلیٰ کا الیکشن نازاں ہے اور اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو ایک خط میں لکھا ہے کہ اگر پنجاب کے نئے وزیر اعلی کو حلف نہ دلوایا گیا تو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرنا ان کا آئینی فریضہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو مزید یاد دلایا کہ وہ ایک ہفتہ پہلے انہیں گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لئے خط لکھ چکے ہیں لیکن عمر چیمہ اب تک غیر قانونی طورپر اپنے عہدے پر برقرار ہیں جو کہ آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایسے میں حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے بے چین مسلم لیگ (ن) کے لیے آئینی بحران تاحال برقرار ہے، پارٹی رہنما یہ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ چیف ایگزیکٹو اور کابینہ کے بغیر ہے۔ 35 اپرہل۔کو حمزہ شہباز نے حلف برداری سے متعلق عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ ایڈوکیٹ خالد اسحاق کی وساطت سے دائر کردہ درخواست میں سیکریٹری ٹو صدر پاکستان، فیڈریشن، وزیراعظم اور پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’درخواست گزار کے پاس اس معزز عدالت کے آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘ درخواست کے مطابق ’صدر پاکستان اس عدالت کے حکم کو تسلیم کرنے میں بغیر کسی وجہ سے تاخیر کر رہے ہیں۔‘ عدالت کو بتایا ہے کہ حمزہ شہباز 16 اپریل کو وزیراعلٰی منتخب ہوئے تھے تاہم ابھی تک ان سے حلف نہیں لیا جا سکا اور پنجاب بغیر وزیراعلی کے چل رہا ہے۔

اس معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا تارڑ کامکہنا ہے کہ ’یکم اپریل سے پنجاب میں شروع ہونے والا آئینی بحران اب تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ حلف برداری میں تاخیر نہ کی جائے لیکن گورنر نے آئین پر عمل نہیں کیا اور اپنے پارٹی رہنما کی ہدایت پر خود کو ہسپتال میں داخل کرا لیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحادی کیمپ کو یقین ہے کہ حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری نہیں ہوگی کیونکہ صدر لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ ’صدر اور گورنر کسی کی خواہش پوری نہ کرکے توہین کے مرتکب ہیں ہوں گے کیونکہ عدالت کو ان معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو صدر پسند نہیں تو اسے ان کا مواخذہ کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ صدر کو ہٹانے کے لیے حکمران اتحاد کو پارلیمینٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔

تاہم گورنر کو تبدیل کرنے کے لیے حکمران اتحاد نے ایک سمری بھیجی ہے جسے صدر 15 دن تک روک سکتے ہیں اور وزیر اعظم کی جانب سے اسی سمری کی دوبارہ توثیق کیے جانے کے لیے مزید 10 دن انتظار کر سکتے ہیں۔

اسی دوران پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے پی ٹی آئی کے 26 منحرف ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھیج دیا ہے، جنہوں نے اپنی پارٹی ہدایات اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔ چوہدری پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن سے پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے ارکان صوبائی اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے صوبائی حکمران اتحاد کا کہنا ہے کہ ای سی پی 30 روز کے اندر منحرف ارکان صوبائی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا پابند ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ نااہلی کا عمل جلد شروع ہو جائے گا جب کمیشن منحرف ارکان کو نوٹس جاری کرے گا۔

Alvi and Cheema are one path of violating the constitution video

Back to top button