امریکہ پاکستان سے کس بات پر ناراض ہو کر پابندیاں لگا رہا ہے؟
امریکہ کی جانب سے پاکستانی نیوکلیئر میزائل پروگرام سے وابستہ چار کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیے جانے پر ڈپلومیٹک حلقوں کا کہنا ہے کہ شاید یہ اس بات کا اظہار ہے کہ واشنگٹن پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہے جس کا جھکاؤ کچھ عرصے سے چین کی جانب ہے۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے جن نیوکلئیر بیلیسٹک میزائلوں پر اعتراضات ہیں وہ کافی عرصہ قبل مکمل کر لیے گئے تھے جو اب تیار حالت میں موجود ہیں۔ ایسے میں امریکی ناراضی کی کوئی فوری وجہ نظر نہیں اتی، خصوصا جب پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا میں جلدی کی گئی جس سے پاکستانی طالبان مزید مضبوط ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی نہیں رہی اور وہ اب خطے میں بھارت کے ساتھ تعاون بڑھا رہا ہے۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ حالیہ سالوں میں پاکستان سے دوری اختیار کر کے بھارت کے بہت زیادہ قریب ہو گیا ہے چونکہ ان دونوں کا مشترکہ دشمن چین ہے جو کہ پاکستان کے بہت قریب ہو چکا ہے۔ امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے اداروں میں پاکستان کے بیلسٹک پروگرام کا ذمہ دار قومی ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس سرِ فہرست ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق پاکستانی کمپنوں پر پابندی کا فیصلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہے۔ ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ میتھیو ملر کے مطابق امریکہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور اس سے منسلک تشویش ناک سرگرمیوں کے خلاف اقدامات جاری رکھے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے یہ ایک ایکشن ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کی مدت مکمل کر رہے ہیں اور ٹھیک ایک ماہ بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں پاکستان کے نیوکلئیر اینڈ آرمز کنٹرول سے متعلق کام کرنے والی ریسرچ فیلو غزالہ یاسمین جلیل کے مطابق پاکستان کے میزائل پروگرام سے منسلک کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ مختلف وجوہات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ پاکستان کو اب اہم اتحادی نہیں سمجھتا اور خطے میں چین کے مقابلے کے لیے وہ بھارت کے ساتھ اشتراک بڑھا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز امریکی فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کا میزائل ٹیکنالوجی اور ڈیفنس سسٹم مقامی سطح پر تیار کردہ ہے اور وہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے ‘آئی اے ای اے’ سمیت تمام ریگولیٹر اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے کبھی ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ اس کے ایٹمی پروگرام میں کوئی لیکج ہوئی ہو۔ البتہ اس کے مقابلے میں بھارت کے حوالے سے مختلف شکایات سامنے آئی ہیں اور کچھ عرصہ قبل بھارتی میزائل بھی غلطی سے چل گیا تھا۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق امریکہ نے بھارت کو حال ہی میں مختلف ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے میں خطے کے ایک ملک کو اس طرح اجازت دینا اور دوسرے پر بغیر کسی وجہ کے پابندیاں عائد کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے پاکستان پر پابندی عائد ہونے کے بعد یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان دور تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کی ایسی صلاحیت حاصل کر رہا ہے جو آخر کار اسے اس قابل بنا دے گی کہ وہ جنوبی ایشیا سے باہر بشمول امریکہ کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکے گا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر مسلسل خدشات پر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں سے نظر آرہا ہے کہ کوئی ناراضگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ بڑے ملکوں کے ساتھ کوئی لڑائی مول لے۔ لیکن پاکستان اپنے مفاد کے لیے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ اس وقت جو لگ رہا ہے وہ یہی ہے کہ امریکہ کا پاکستان پر غصہ ہے لیکن اس کی وجوہات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں کہ پاکستان کی نیوکلیئر سیفٹی یا سیکیورٹی اور پھیلاؤ کے حوالے سے کسی کو کوئی شکایت نہیں پاکستان کو توقع ہے کہ صدر جو بائیڈن کے جانے کے بعد نئی آنے والی امریکی حکومت ان پابندیوں کا جائزہ لے گی اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ انکا کہنا یے کہ کسی سرکاری کمپنی پر پابندی لگانا اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی عزائم نہیں لیکن امریکہ نہیں چاہتا کہ خطے میں پاکستان اس پروگرام میں مزید طاقت حاصل کرے اور لانگ رینج کے میزائل تیار کرے۔
تجزیہ کار غزالہ یاسمین کہتی ہیں کہ امریکی پابندیوں کا پاکستان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ہو گا لیکن وہ میزائل جو بن چکے ہیں اب ریورس نہیں ہوں گے۔ البتہ مستقبل میں کسی میزائل پروگرام کی اپ گریڈیشن کے کچھ مسائل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسے مسائل سے ماضی میں نبٹتا رہا ہے۔ لہذا ان کے خیال میں امریکی پابندیوں سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میزائل پروگرام صرف اور صرف پڑوسی ملک بھارت کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا جاتا ہے اس سے کسی اور ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر پہلی مرتبہ پابندیاں نہیں لگیں ماضی میں بھی لگتی رہی ہیں۔ پاکستان اس طرح کی پابندیوں کے بعد خودانحصاری کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔