الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کا فیصلہ کون کرے گا؟

نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے اعلان سے 90 دن  میں انتخابات کے انعقاد کا امکان بالکل ختم ہو چکا ہے۔ تاہم الیکشن 6 ماہ سے آگے لے جانے کے لئے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو آئین کی خلاف ورزی کرنا ہوگی۔ لہٰذا یہ آپشن کسی سنگین اقدام کے نتیجے میں ہی حقیقت بن سکتا ہے اور اس کے بہت سے غیر ارادی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی فہد حسین نے دی فرائیڈے ٹائمز کیلئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کی ہے۔ فہد حسین کا مزید کہنا ہے کہ ملک ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جو آنے والے کئی سالوں کے لئے ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا، وفاقی دارالحکومت میں ایک یکسوئی ہے جو ایک ایک کر کے تمام بڑے دفاتر کا رنگ تبدیل کرتی جا رہی ہے۔ رنگوں اور ہئیتوں کی یہ مسلسل تبدیلی ایک ہی سوال کے گرد گھومتی ہے:انتخابات کب ہوں گے؟ تاہم اس سوال پر ہر آدمی کا اپنا جواب ہے۔ ہر وقت کا اپنا جواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ایک طرف انتہائی سادہ دکھتا ہے لیکن دراصل انسان کو مشتعل کر دینے کی حد تک پیچیدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے 9 مئی کے بعد اور اس سے پہلے والے تمام تنازعات، تضادات اور پیچیدگیاں اس ایک سوال میں آ کر مرکوز ہو گئی ہیں۔ اور اسی لئے تمام سٹیک ہولڈر اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے الفاظ، خیالات اور اقدامات میں غیر معمولی احتیاط برتتے نظر آتے ہیں۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کے وقت کے حوالے سے تین ممکنات ہیں۔ پہلی یہ کہ واقعی الیکشن اپنی مقررہ 90 دن کی مدت میں ہو جائیں۔ دوسری یہ کہ نئی حد بندیاں ہونے کے بعد فروری 2024 میں کسی تاریخ کو انتخابات کروا دیے جائیں۔ اور تیسری یہ کہ یہ فروری کے بھی بعد۔۔۔ کبھی نا کبھی۔۔۔ کروا دیے جائیں۔

فہد حسین کے مطابق ان تین ممکنات میں سے کون سی رائے حقیقت کا روپ دھارے گی، اس کا فیصلہ تین اداروں سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، اور اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے۔ فہد حسین کا کہنا ہے کہ الیکشن بارے تین ممکنات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 90 دن میں الیکشن کا انعقاد صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی اس دلیل کو مسترد کر دے کہ انتخابات نئی حد بندیوں کے بعد ہی ممکن ہیں اور آئین میں دی گئی مدت پر الیکشن کروانے کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ عدالت کے سامنے پہلے ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو چیلنج کرتی متعدد درخواستیں موجود ہیں۔ ستمبر کے وسط میں ریٹائر ہونے سے قبل موجودہ چیف جسٹس اس حوالے سے کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے واقعی الیکشن 90 دن میں کروانے کا حکم دے دیا تو پورا سسٹم گھوم کے رہ جائے گا۔ایسی صورت میں باقی دو اداروں کا ردِ عمل بہت معنی خیز ہوگا۔

فہد حسین کے مطابق الیکشن کمیشن اس ممکنہ فیصلے کے مضمرات پر غور و خوض کر چکا ہے اور اس کا فیصلہ حیران کر دینے والا ہے۔ حد بندیوں کے حق میں دلائل دیے جائیں گے لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ انتخابات 90 دن میں ہی کروائے جائیں تو پھر اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔

فہد حسین کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اس بات کی تصدیق کی تو ایک سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حقیقت یہی ہے۔ ان کے مطابق چیف الیکشن کمشنر مختلف اجلاسوں میں کہہ چکے ہیں کہ ECP سپریم کورٹ کے احکامات کی پابندی کرے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب الیکشن 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا اور حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ کیا ECP نومبر کی ڈیڈلائن کو انتظامی طور پر یقینی بنا سکتا ہے؟ سابق وزیر کا جواب اثبات میں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ECP سربراہ دیگر پیچیدگیوں کے باوجود یہ کر گزریں گے۔

فہد حسین کے مطابق دوسرا آپشن فروری میں الیکشن کے انعقاد کا ہے تاہم یہ اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ECP کو حکم دے کہ حلقہ بندیوں کا کام مکمل کرے اور 90 دن کی ڈیڈلائن اس عمل کے مکمل ہونے تک آگے بڑھا دی جائے۔ یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس کر بھی سکتے ہیں اور وہ وقت گزاری کر کے ریٹائر ہو سکتے ہیں اور اس فیصلے کو آنے والے چیف جسٹس پر بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ اگر یہ اجازت دے دی گئی تو باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات فروری کے تیسرے ہفتے میں ہوں گے۔ اس وقت تک ECP حلقہ بندیاں مکمل کر چکا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اگر فروری کے تیسرے ہفتے میں الیکشن ہو جاتا ہے تو مارچ میں سینیٹ الیکشن کے وقت سے پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ جائیں گی اور الیکٹورل کالج بنا کسی تاخیر یا پیچیدگی کے پورا ہو جائے گا۔

فہد حسین کے مطابق انتخابات کیلئے تیسرا آپشن یہ ہے کہ فروری کے بعد کسی مناسب وقت پر الیکشنکروا دئیے جائیں تاہم یہ وہ آپشن ہے جہاں چیزیں پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ الیکشن 6 ماہ سے آگے لے جانے کے لئے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو آئین کی خلاف ورزی کرنا ہوگی۔ ریڈ زون ذرائع کا ماننا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کو موجودہ حالات میں اس کے لئے قائل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ آپشن کسی سنگین اقدام کے نتیجے میں ہی حقیقت بن سکتا ہے اور اس کے بہت سے غیر ارادی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

فہد حسین کے مطابق اگرموجودہ صورتحال نے حتمی طور پر انتخابات پر ہی منتج ہونا ہے تو فی الحال اس کے بہت سے اجزا کچن میں پھینٹے جا رہے ہیں۔ جلد بازی میں کی گئی قانون سازی، غیر دستخط شدہ قوانین، جیل کی سزائیں، ضمانتوں کی منسوخیاں، اتحادوں کا بننا، بگڑنا، سخت اقدامات، نرم اقدامات، اور یقیناً اس سنگین بحرانی صورتحال میں نگرانی کا عمل، یہ سب اجزا ابھی ایک ہانڈی میں بھرے جا رہے ہیں اور چولہا گرم ہو رہا ہے۔نکتے ابھی آپس میں ملے نہیں ہیں۔ اس لئے مستقبل کی سیاست بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ کبھی کبھی بہترین منصوبے بھی ناکام ہوجاتے ہیں۔

Back to top button