کیا آفتاب سلطان چئیرمین نیب کا عہدہ چھوڑ دیں گے

عمران خان کے دور حکومت میں زیر عتاب رہنے والے موجودہ چیرمین نیب آفتاب سلطان کو پی ڈی ایم حکومت میں بھی غیر منصفانہ فیصلے کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے تاہم ذرائع کے مطابق آفتاب سلطان نے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اب یہ معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے نوٹس میں بھی لایا گیا ہے، سینئر صحافی انصار عباسی نے یہ انکشاف اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے . وہ باخبر ذرائع کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ موجودہ چیئرمین نیب آفتاب سلطان پر اس وقت ادارے کے کچھ معاملات کے حوالے سے دبائو ڈالا جا رہا ہے تاہم وہ کسی بھی طرح کا دبائو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، کسی کے خلاف غلط مقدمہ کرنے کو تیار نہیں اور ساتھ ہی کسی کے خلاف غیر منصفانہ انداز سے کوئی کرپشن کیس یا زیر التوا انکوائری ختم کرنے کے خواہشمند بھی نہیں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان کی تشویش اور تحفظات سے وزیراعظم شہباز شریف کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اشارہ دیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم آئندہ ہفتے آفتاب سلطان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ انصار عباسی بتاتے ہیں کہ جو لوگ آفتاب سلطان کی سرکاری ملازمت کی تاریخ سے آگاہ ہیں، انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان نیب کو سیاسی انتقام بنانے کا آلہ نہیں بننے دیں گے جیسا کہ ان کے پیش رو جاوید اقبال کے دور میں ہوا کرتا تھا، کسی کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے وہ عہدہ چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔
آفتاب سلطان کے قریبی ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم نے ان کے آزادی سے بطور چیئرمین نیب کام کرنے کو یقینی نہ بنایا تو آفتاب سلطان کٹھ پتلی چیئرمین بننے کی بجائے عہدہ چھوڑ دیں گے۔ آفتاب سلطان 22؍ گریڈ کے پولیس سروس کے افسر ہیں۔انصار عباسی بتاتے ہیں کہ آفتاب سلطان ، بے داغ کیریئر کے ساتھ ڈی جی آئی بی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہوں نے ہی ادارے کو موثر سیکورٹی ایجنسی بنانے کیلئے اصلاحات متعارف کرائی تھیں۔
اپنے دور میں، انٹیلی جنس بیورو کو نہ صرف جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا حامل ادارہ بنایا گیا بلکہ ادارے نے کامیابی کے ساتھ کئی دہشت گرد نیٹ ورکس کو نشانہ بنا کر دہشت گردی کی لعنت کا بھی مقابلہ کیا۔ آفتاب سلطان نیب کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے اور سیاست دانوں، بیوروکریٹس کاروباری افراد یا دیگر کو نشانہ بنانے والے ادارے کی بجائے احتساب کا موثر ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔
نیب کے ایک اندرونی ذریعے کا کہنا تھا کہ جب سے آفتاب سلطان نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے، ہر انکوائری اور شکایت کو اس کے میرٹ کے مطابق جانچا اور پرکھا جا رہا ہے۔ صرف ایسے کیسز پر ہی کارروائی کی جا رہی ہے جن میں مقدمہ چلانے کیلئے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ آفتاب سلطان کی قیادت میں نیب میں بلیک میلنگ بند ہوگئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آفتاب سلطان نے نیب میں اچھی ساکھ کے حامل افسران کو مقرر کیا ہے تاکہ احتساب کے عمل کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم، ادارے میں اصلاحات لانے کیلئے جس طرح کی مدد اور حمایت انہیں حکومت سے درکار ہے اس کا فقدان پایا جاتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں آفتاب سلطان کو ڈی آئی جی سرگودھا لگایا گیا تھا اور اس وقت جنرل مشرف نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تھا۔
آفتاب سلطان سرگودھا ڈویژن سے کافی سپورٹ حاصل نہ کر پائے اور اسلئے انہیں عدم تعاون کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بعد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں ڈی جی آئی بی لگایا لیکن دوسال بعد ہٹا دیا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خفیہ فنڈز کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے ایوانِ صدر کے ساتھ انٹیلی جنس رپورٹس یہ کہتے ہوئے شیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ یہ معلومات صرف صدر وزیراعظم کو ہی فراہم کر سکتے ہیں۔دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو مشورہ دیا کہ وہ سوئس حکام کو صدر زرداری کیخلاف خط لکھنے کے معاملے میں درمیانہ راستہ اختیار کریں۔ انصار عباسی مزید بتاتے ہیں کہ 2013ء کے الیکشن سے قبل انہیں آئی جی پنجاب لگایا گیا۔ بعد میں انہیں پھر ڈی جی آئی بی لگایا گیا اور اس وقت ملک کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔
اپنے چار سالہ دور میں آفتاب سلطان نے آئی بی کو انسداد دہشت گردی کا سرکردہ ادارہ بنایا اور کراچی میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں کے ساتھ کئی نمایاں مقدمات حل کیے تاہم، عمران خان نے آفتاب سلطان پر تنقید کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے 2014ء میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے پیچھے ایک اور سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کے ملوث ہونے کی معلومات وزیراعظم نواز شریف کو پیش کیں۔
عمران خان نے آفتاب سلطان پر الزام عائد کیا کہ صحافیوں اور اینکرز کو نون لیگ کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ وہ الزام تھا جس کی آفتاب سلطان نے تردید کی تھی۔انصار عباسی کہتے ہیں کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے ڈی جی آئی بی کے ذریعے اس الزام کی تحقیقات کرائیں لیکن یہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔
عمران خان حکومت نے انہیں نواز شریف دور میں سارک کے اجلاس کے دوران لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کے کیس میں نیب کے ذریعے پھنسانے کی کوشش کی۔ اس کیس میں آفتاب سلطان تین مرتبہ پیش ہوئے اور اس کے بعد انہیں کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔ یہ سارا پس منظر بیان کرتے ہوۓ انصار عباسی کہتے ہیں کہ آفتاب سلطاں … سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال جیسے نہیں ہیں۔ جو لوگ موجودہ چیئرمین نیب کو دبائو میں لا کر سابق انتہائی متنازع چیئرمین کی زیر قیادت بیورو کی سیاہ تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا واسطہ غلط شخص سے پڑ گیا ہے۔