نئے چیف جسٹس پاس ہونگے یا فیل!

تحریر:انصار عباسی۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایسے تنازعات کی ایک لمبی فہرست لے گئے جن کا تعلق اُن کے دور کے عدالتی فیصلوں سے ہے۔

اپنے مختلف پیشروئوں کی طرح ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے آپ سے مطمئن ہوں کہ اُنہوں نے بہت کام کئے لیکن سچ پوچھیں تو بندیال کا نام بھی تاریخ کے ناکام چیف جسٹسز میں ایک اور اضافہ ہوگا۔

ویسے تو اُنہیں تاریخ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی اُنہوں نے سیاسی نوعیت کے فیصلے کس قدر جانبداری سے کئے، کیسے ہم خیال ججوں کو مرضی کے فیصلے کرانے کےلئے استعمال کیا، کس طرح سپریم کورٹ کے اندر تقسیم پیدا کی لیکن اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کر سکے۔

کسی فرد سے پوچھ لیں، پاکستان کے کسی خطہ میں چلے جائیں کسی کو بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ نہ صرف انصاف بہت مہنگا ہو چکا بلکہ اگر کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف کے لئے عدالت میں چلا بھی جائے تو برسوں بلکہ کچھ کیسوں میں تو دہائیوں تک فیصلے نہیں ہوتے۔

مجموعی طور پر عدالتی نظام ناکام ہو چکا۔ اپنے گزشتہ کئی چیف جسٹسز کی طرح بندیال صاحب نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ دوسروں کی طرح اُن کی توجہ بھی بڑے بڑے سیاسی مقدمات پر ہی مرکوز رہی اور یوں عدلیہ مزید تنازعات کا بھی شکار ہوئی اور عوام کو انصاف دینے کے بنیادی فریضے سے بھی مزید دور ہوتی چلی گئی۔

بندیال رخصت ہو گئے اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ اب اُن کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔

نئے چیف جسٹس اچھی ساکھ کے مالک ہیں لیکن اُن کو تاریخ کیسے دیکھے گی اس کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ اُن کا کردار بحیثیت چیف جسٹس کیا رہتا ہے۔

مختلف لوگوں کی اُن سے مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ کوئی چاہتا ہے کہ چیف جسٹس ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلوں کو درست کریں۔ کسی کی خواہش ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو سب سے پہلے ختم کریں۔ سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس سے متعلق اپنی اپنی توقعات ہیں۔ تاہم میری نظر میں چیف جسٹس صاحب کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ کیا وہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر پائیں گے۔

اگر ایک طرف سپریم کورٹ سے یہ توقع ہوگی کہ اُس کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی طبقہ کی بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مرکوز ہو، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تقسیم ختم ہو، چیف جسٹس کے بینچ بنانے، مقدمات لگانے وغیرہ جیسے اختیارات کو غلط استعمال ہونے سے بچانے کے لئے اصلاحات کی جائیں تو دوسری طرف پاکستانی قوم کو عام عدالتوں میں انصاف چاہئے۔ جلد اور سستا انصاف۔

ایسا عدالتی نظام جو مظلوم کے لئے امید کا ذریعہ ہو اور ظالم اور قانون شکن کے لئے خوف کی علامت۔

پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ اگر یہاں مظلوم تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے تو کورٹ کچہری کا بھی یہی حال ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سمت درست کرنے کی طرف ہونی چاہئے تاکہ عدالتیں ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دینا شروع کریں۔ عدالتیں انصاف دیں گی تو اُن کا احترام ہو گا۔

اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا جیسے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے تو پھر چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود سوچ سکتے ہیں کہ تاریخ اُن کے بارے میں کیا فیصلہ

سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو تین سال قید کی سزا

کرے گی۔

Back to top button