آئینی ترمیم کی منظوری،PTIمشاورتی عمل سے پیچھے کیوں ہٹ گئی؟

عدالتی اصلاحات بارے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے نمبر گیم حکومت کے حق میں جاتا دیکھ کر تحریک انصاف جہاں عملاً آئینی ترامیم کے معاملات سے الگ ہو گئی ہے وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی نے احتجاج اور انتشار کے ذریعے آئینی ترمیم کی منظوری میں رکاوٹیں ڈال کر اسے 25 اکتوبر تک مؤخر کرنے کی سازش کی تیاری شروع کر دی ہےتاہم حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کی تمام تر سازشوں اور ہنگامہ آرائی کے باوجود حکومت 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کیلئے پرعزم ہے اور وہ ہر صورت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل مشن آئین ترمیم کو انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔

ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم کے معاملے کو اختلافات کا شکار کرنے کیلئے پی ٹی آئی نے اس حوالے سے جاری پارلیمانی مشاورتی عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی اس حوالے سے پارلیمنٹ میں جاری مشاورتی عمل سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ تحریک انصاف حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے سامنے اپنا موقف رکھنے کی بجائے ان ترامیم کو ناقابل عمل بنانے کے لئے اعلی عدلیہ پر انحصار کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے عہدیدار پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پر بحث و تمحیص کی بجائے صرف احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور شور مچانے کیلئے شریک ہورہے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے اس سارے معاملے کو متنازعہ بنایا جا سکے۔

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی ان تمام تر کوششوں کا محور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے وہ ارکان ہیں جنہیں وہ اپنی صف میں شمار کرتی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ متعلقہ اراکین آنکھیں بند کرکے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ نہیں اوراس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترامیم کی حمایت میں ووٹ دینگے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والے اپوزیشن رہنما اپنے اس اقدام کے نتائج کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار ہیں

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے نمائندے آئندہ تین دنوں میں ملک میں ہنگامہ آرائی اور فساد پیدا کرنے کی غرض سے ’’احتجاج‘‘ کی راہ لے رہے ہیں جس کے لئے اس سے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں حکمر ان مسلم لیگ نون سے لیکر حزب اختلاف کی سب سے جاندار آواز مولانا فضل الرحمن تک سب نے تحریک انصاف کو ہنگامہ آرائی سے باز رہنے کا مشورہ دیدیا ہے، خود تحریک انصاف کے اندر بھی ہنگامہ آرائی کرنے اور نہ کرنے کے سوال پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے پیش آمدہ دنوں میں قیدی نمبر 804 کی پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے حکومت سختی سے اپنے اس فیصلے پر کاربند ہے کہ عمران خان کی ضابطے سے ہٹ کر کوئی ملاقات نہیں کرائی جائے گی۔ اس لئے ملاقات آئندہ پیر (21؍اکتوبر) سے پہلے ممکن نہیں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر اگر تحریک انصاف نے احتجاج کیا تو اسے پوری قوت سےکچل دیا جائے گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات نہ کرانے کے بہانے ایک طرف احتجاج  کر کے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوشاں ہے دوسری جانب پی ٹی آئی آئینی ترامیم کی منظوری سے قبل ایسا ہنگامہ برپا کرنا چاہتی ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت بھی گھبراجائے اور پارلیمنٹ کی کارروائی کا چلانا مشکل ہوجائے جہاں آئینی ترامیم کو منظور کرانےکے لئے بہت محدود وقت باقی رہ گیا ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ  آئینی ترامیم کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور نون لیگ سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں میں اتفاق رائے کے بعد اصولی مفاہمت طے پا گئی ہے اور حکومتی اتحادی جماعتیں ہر صورت 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کیلئے یکسو ہیں۔ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے تمام مشاورتی گروپس کوہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ مذاکراتی کام کو جلد از جلد مکمل کر لیں۔ کیونکہ اسلام آباد میں ہونے والی ایس سی او کانفرنس کے بعد ان کے پاس محض ایک دن ہوگا کہ وہ 17؍ اکتوبر کو کسی صلاح مشورے میں حصہ لے سکیں یہی وجہ ہے کہ قیاس کیا جا رہاہے کہ پارلیمانی ایوانوں کے اجلاس 17ٓ؍ کتوبر کو ہوجائیں گے جن میں آئینی ترامیم زیر غور لائی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق شہباز حکومت نے آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ پلان نمبر ایک کے مطابق جے یو آئی سے آئینی ترمیم بارے مفاہمت کے بعد جمیعت علمائے اسلام کے اراکین کے ساتھ نمبر گیم پوری کی جائے گی۔ دوسری صورت میں الیکشن ایکٹ کے تحت حکومتی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والی مخصوص نشستوں کے ذریعے دو تہائی اکثریت پوری کی جائے گی۔ حکومت ذرائع اس حوالے سے امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے ارسال کردہ ان دو مراسلوں کے با رے میں 17؍ اکتوبر کو فیصلہ کردے گا جس میں مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار دیئے جاچکے ارکان کو ایوان میں رکنیت واپس دینے کا اعلامیہ جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ تاہم یہ پلان بھی فیل ہونے پر آزاد اراکین کے ذریعے حکومت آئینی ترمیم منظور کروا لے گی۔

Back to top button