پاکستان کو ڈھیلی ریاست بنانے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں یا فوج ؟

بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے مسئلے پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنی تقریر میں سیاسی قیادت کو یہ کہہ کر کھلی وارننگ دی کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنے شہداء کے خون سے بھرتی رہیں گی۔ انہوں نے سیاسی قیادت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ پاکستان کو ایک سافٹ سٹیٹ یعنی ڈھیلی ریاست والی پالیسی چھوڑ کر ہارڈ سٹیٹ یعنی سخت اور ایک فولادی ریاست بننا پڑے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 75 برس میں پاکستانی ریاست کی تمام تر پالیسیاں فوجی قیادت نے ہی بنائی ہیں چاہے وہ ڈھیلی ہوں یا فولادی، اور مستقبل میں بھی یہ فیصلے عسکری قیادت ہی کرے گی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف کو یہ قیمتی مشورہ سیاسی لیڈرشپ کو دینا چاہیے تھا یا اپنے کور کمانڈرز کو؟

بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینیئر صحافی وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ ہماری موجودہ جرنیلی کلاس پچھلے والوں سے زیادہ پالشڈ ہے جبکہ سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ اپنے پرکھوں کے مقابلے میں یا تو کم پڑھی لکھی ہے، یا پھر اس نے اپنا علم و فضل خفیہ رکھا ہوا ہے اور اس کا فوٹو کاپی سوچ پر گزارہ ہے۔ انکے مطابق ہماری سیاسی کلاس چونکہ تن آسان ہے لہذا وہ محنت طلب پالیسی سازی اور پھر اس پر عمل کرنے اور کروانے کی طاقت و صلاحیت سے بھی بتدریج دستبردار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ ’تسی دسو اسی کی کرنا اے‘ یعنی آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔

وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ گذشتہ ایک دہائی میں بیشتر انتظامی یا پالیسی اصطلاحات، فوجی آپریشنز کے ٹائٹلز اور اسلحے کے نام ہماری فوجی قیادت نے ہی متعارف کروائے ہیں۔ مثلاً حتف میزائل، ابدالی، غوری، غزنوی، شاہین، بابر، نصر میزائل، ضرار ٹینک، آپریشن ضربِ عضب، ضرب آہن، راہِ نجات، عزم استحکام، امیدِ نو، آپریشن مرگ بر سرمچار، ففتھ جنریشن وار، ڈیجیٹل ٹیرر ازم، فتنہِ الخوارج وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ان بھاری بھر کم ناموں اور کاموں کے باوجود آرمی چیف کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کھل کے کہنا پڑا کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بھرتی رہیں گی اور ہمیں ایک سافٹ سٹیٹ کی سوچ سے نکل کے ہارڈ اسٹیٹ بننا پڑے گا۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جنرل صاحب تو بس اتنا کہہ کر چلے گئے مگر مجھ جیسے صحافیوں کو وختہ پڑ گیا کہ یہ سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کیا بلا ہوتی ہے؟ گوگل کی معرفت اے آئی سے رجوع کیا تو اس نے بتایا کہ سافٹ سٹیٹ طوائف الملوکی کو کہا جاتا ہے جہاں قوانین کاغذ پر تو موجود ہوتے ہیں مگر ان پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ ایسے میں کرپشن کی وجہ سے ریاستی عمل داری کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور فرد، جماعت اور ادارہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے چنانچہ اس ریاست کی اپنی آبادی اور علاقے پر گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ یوں ریاست بالاخر غریب کی جورو میں تبدیل ہو کر سب کی بھابی بن جاتی ہے۔ اور سب کی بھابھی کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔

وسعت اللہ خان مزید بتاتے ہیں کہ ارمی چیف نے سافٹ سٹیٹ کے علاوہ دوسرا لفظ ہارڈ سٹیٹ کا استعمال کیا۔ ہارڈ سٹیٹ یا فولادی ریاست مرکزیت پر مبنی موثر گورنننس کے قیام پر یقین رکھتی یے۔ ایسی ریاست داخلی و خارجی طور پر اپنی بات، پالیسی یا قانون منوانے کے لیے عسکری و اقتصادی قوتِ نفاذ رکھتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے گورنننس کی بہتری کے لیے جس آہنی ریاست کی بات کی ہے وہی بات نومبر 2018 میں انڈین مشیرِ قومی سلامتی اجیت دووال نے سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے کی پالیسی دیتے ہوئے کی تھی۔ انہوں نے بھی کم و بیش یہی کہا تھا کہ ’ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن تب تک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جب تک ہم ایک سافٹ ریاست کی سوچ سے نکل کر ہارڈ ریاست نہیں بنتے۔

سینیئر صحافی کے مطابق ایسا نہیں کہ انڈیا کوئی کمزور ملک ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ گورنننس کے ڈھل مل معیار کے سبب اپنی طاقت کا موثر نفاذ نہیں کر پا رہے۔ اگر ہم ذرا دیر کے لیے یہ ضرب المثل کھڑکی سے باہر پھینک دیں کہ ’جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر شے کیل نظر آتی ہے‘ تب بھی ایک تیسری سوچ پرکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس سوچ کے مطابق اگر سافٹ سٹیٹ کو بدنظمی و طوائف الملوکی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو ہارڈ سٹیٹ کی اینٹی بایوٹک ایک اور انتہا ہے جسکا مسلسل استعمال وائرس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام کو بھی کمزور کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست کو اپنے مجموعی انتظامی رویے میں لچکدار اور عملیت پسند ہونا چاہیے کیونکہ آپریشن اور بعد از آپریشن مریض کی دیکھ بھال کی یکساں اہمیت ہی کسی ریاست کی دیرپا صحت کی ضامن بن سکتی ہے۔

وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ریاست عوامی اعتماد کے بغیر بزور طاقت کچھ عرصہ تک تو چلائی جا سکتی ہے مگر یہ خود بخود نہیں چل سکتی۔ جب عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے مروجہ و مسلمہ سیاسی و قانونی راستوں کے احترام اور تحفظ کی ضمانت خود ریاستی ادارے اپنے قول و فعل سے مہیا کریں اور ہر ادارہ یعنی مقننہ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ عقلِ کل بننے اور ایک دوسرے کو بانجھ کرنے کے بجائے اپنے اپنے متعین آئینی دائرے میں کام کریں تو پھر ہارڈ اور سافٹ سٹیٹ کی بحث غیر ضروری ہو جاتی ہے۔

ایسے سازگار ماحول میں عوام و ریاست باہمی فرائض و حقوق کا احترام کرتے ہوئے فطری حلیف بن جاتے ہیں لیکن قانون سازی کا مقصد اگر وسیع تر عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے بجائے کسی خاص طبقے یا چند اداروں کا مفاداتی تحفظ ہو تو پھر ایسی خود غرض ریاست اور اس کے عوام بتدریج ایک دوسرے سے بدظن ہو کر حریف بنتے چلے جاتے ہیں اور اس خلا کو غلط فہمی، غصہ اور شورش کے جذبات پر کرتے ہیں اور اس بے چینی کو دبانے کے لیے مزید سختی کرنا پڑتی ہے۔

صدر ٹرمپ جیل میں بند عمران کی رہائی کے لیے فون کیوں نہیں کرتے؟

چنانچہ وسعت اللہ خان کے خیال میں ریاست نہ تو اپنا اور نہ ہی رعایا کا یکسوئی سے اندرونی و بیرونی سٹرٹیجک اور معاشی تحفظ کر سکتی ہے۔ قرض اور ٹیکس سے جمع ہونے والا جو پیسہ بنیادی سہولتوں پر صرف ہونا چاہیے وہ سال بہ سال بڑھنے والا اضافی سکیورٹی بجٹ نگلتا چلا جاتا ہے۔ سینیئر صحافی کے خیال میں طاقت کا بلڈوزر ناہموار زمین کو اس نیت سے ہموار کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ اس پر ایک مضبوط کرپشن فری سیاسی و اقتصادی عمارت بنائی جا سکے، نا کہ ہموار زمین کو مزید قلعہ بندیاں اٹھانے کے لیے استعمال کرنا پڑ جائے۔ پاکستان نے 78 برس میں متعدد بار ہارڈ اور سافٹ ریاست بننے کا تجربہ کر لیا۔ اب ایک آدھ بار مکمل آئینی ریاست بننے کا تجربہ بھی کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ زندگی بھر ’سخت لونڈا‘ بننے کی تگ و دو میں آخر کب تک دوڑا جا سکتا ہے؟

Back to top button