کیا ارشد شریف کو گولیاں گاڑی کے اندر سے ماری گئیں؟

معروف صحافی اسد علی طور نے دعوی ٰکیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں کے خیال میں واقعے کے وقت گاڑی میں مقتول صحافی اور خرم احمد کےعلاوہ کوئی تیسرا شخص بھی موجود تھا جس کی موجودگی چھپائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ارشد کا قتل سو فیصد ٹارگٹ کلنگ ہے اور ممکنہ طور پر انہیں جو گولی سینے میں لگی تھی وہ انہیں زیادہ سے زیادہ چار فٹ کی دوری سے ماری گئی۔ اسد طور کے بقول تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ارشد کا قتل چلتی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ نہیں۔ اس کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یا تو صحافی کو گولی گاڑی کے اندر ہی سے ماری گئی ہے یا پھر پچھلے دروازے کے نزدیک سے ماری گئی۔ تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔

اسد علی طور نے اپنے وی لاگ میں بتایا کہ پمز ہسپتال اسلام آباد میں ارشد شریف کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے دوران ان کے سینے سے بھی ایک گولی ملی جو کہ ڈاکٹرز کے لیے حیرت کا باعث تھی کیونکہ کینیا میں ہونے والے پوسٹ مارٹم میں سینے والی گولی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ارشد شریف کو سینے میں گولی نزدیک سے ماری گئی۔ اسد طور کا کہنا تھا کہ قتل کے وقت ارشد اور خرم احمد کے علاوہ بھی کار میں کوئی تیسرا شخص موجود تھا۔ تازہ ترین اطلاعات آنے کے بعد اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ارشد کو سینے میں گولی گاڑی کے اندر ہی سے ماری گئی۔ انہوں نے کہا کہ یا تو یہ گولی پچھلی سیٹ سے ماری گئی یا پچھلا دروازہ کھول کر گاڑی کے قریب کھڑے ہو کر ماری گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصل واؤڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں جو دعویٰ کیا کہ ارشد شریف کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون نہیں ملے گا کیونکہ ثبوت مٹا دیے گئے ہیں، وہ غلط ثابت ہوا ہے اور ارشد شریف کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون مل گئے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں کینیا میں پولیس حکام کے پاس ہیں اور انہی دونوں چیزوں سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات کی روشنی میں تفتیش کا دائرہ کار تین ملکوں تک پھیلایا گیا ہے۔ ان ملکوں میں کینیا، دبئی اور پاکستان شامل ہیں اور ان تینوں ملکوں سے فی الحال 22 لوگوں سے تفتیش کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ارشد شریف کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کا فارنزک ٹیسٹ کروانے کے بعد اور بھی لوگوں سے تفتیش کی جائے گی۔ بنیادی طور پر تفتیش میں شامل ہونے والے 22 میں سے 9 افراد کا تعلق کینیا سے ہے جن میں سے 2 لوگ مفرور ہیں۔ اسد طور نے سوال کیا کہ اگر کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی تو پھر یہ دو لوگ کیوں مفرور ہیں، ان کا غائب ہونا معنی خیز ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ ارشد کو قتل کیا گیا۔

دو سینئرترین جرنیلوں کو ترقی دینے کا فیصلہ ہوگیا

اسد طور کے بقول دبئی میں 8 لوگوں سے تفتیش کی جائے گی اور پاکستان میں پانچ لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا جن میں سے دو سیاستدان ہیں، ایک فوجی ہے اور ایک بیورو کریٹ ہے۔ انکے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پانچ پاکستانی مشکوک ہیں ابھی انہیں صرف شامل تفتیش کیا جائے گا۔ اسد کے مطابق قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو وقار احمد نے بتایا ہے کہ وہ ارشد شریف کو بالکل نہیں جانتے تھے اور ‘کسی’ کے کہنے پر انہیں نیروبی میں اپنے ریزارٹ پر ٹھہرایا تھا۔ اس کا مطلب ہے ارشد شریف خود سے کینیا نہیں گئے بلکہ انہیں وہاں بھجوایا گیا تھا اور بھجوانے والے شخص کا نام سلمان اقبال ہے جنہیں عمران خان کے قریب ترین خیال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ارشد شریف کا قتل اسٹیبلشمنٹ کے اس دھڑے نے کروایا ہو جو عمران خان کو دوبارہ برسراقتدار لانا چاہتا ہے۔

Back to top button