بالاخر عمران کے خود گھبرانے اور گھر جانے کا وقت بھی آ گیا
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد اب کپتان کی تاش کے پتے بکھرنا شروع ہو چکے ہیں اور ان کے گھبرانے اور گھر جانے کا وقت آگیا ہے۔ دو ارب پتی دوستوں جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان کا پارٹی سے بغاوت کر کے ایک پیج پر اکٹھے ہو جانا عمران کے لئے ایک ایسی سونامی ہے جو وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی صورت میں وزارت عظمیٰ، وزارت اعلیٰ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو بہا کر لے جائے گی۔ یعنی بقول شخصے، خان کا جانا ٹھہر گیا، صبح گیا یا شام گیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عبدلعلیم خان کی جانب سے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کے بعد سردار عثمان بزدار کی وزارت اعلی شدید ترین خطرات سے دو چار ہو گئی ہے اور اب عمران خان کے وسیم اکرم پلس کا بچنا محال دکھائی دیتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان نے تحریک انصاف کے پنجاب چیپٹر میں بڑھتی ہوئی بغاوت کی آگ کو بجھانا ہے تو انہیں فورا جہانگیر ترین سے معاملات طے کر کے عثمان بزدار کی جگہ علیم خان کو پنجاب کا وزیر اعلی نامزد کر دینا چاہیے۔ یوں وہ مرکز میں اپنے خلاف ممکنہ بغاوت کا راستہ بھی روک سکتے ہیں اور اپنا اقتدار بھی بچا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ علیم ترین گروپ دو سال تک ’’ راندہ درگاہ ‘‘ قرار دیئے جانے کے سبب تحریک انصاف میں غیر فعال ہو چکا تھا، لیکن اب اپوزیشن کے متحرک ہونے کے بعد یہ گروپ پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ فعال ہو گیا ہے اور بڑی تعداد میں ٹکٹ ہولڈرز، تنظیمی رہنما اور کارکنان اسکا حصہ بننے جا رہے ہیں۔
یوں تحریک انصاف اقتدار میں ہونے کے باوجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے جا رہی یے۔ عبدالعلیم خان نے 4 جنوری 2012 کو باضابطہ طور پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن دس برس بعد 2022 میں بغاوت کرنے پر مجبور ہو گئے، مینار پاکستان پر اکتوبر 2011 میں عمران خان کے تاریخ ساز جلسے کے مرکزی منتظمین میں علیم خان سب سے نمایاں کردار تھے لیکن انہیں اس کا صلہ یہ ملا کے پنجاب میں برسر اقتدار آنے کے بعد انہیں 100 دن نیب کی حراست میں بھگتنا پڑے اور ایسا عمران کی ذاتی خواہش پر ہوا جو بزدار کو بچانے کے لیے آخری حد تک چلے گئے۔
7 مارچ کو جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر باغی پارٹی اراکین سے خطاب کے دوران علیم خان نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کسی فردِ واحد کی پارٹی نہیں ہے بلکہ ہم سب کی پارٹی ہے اور یہ میری اور جہانگیر ترین کی کوششوں سے وجود میں آئی تھی۔ لیکن ہمیں صلہ یہ ملا کہ جہانگیر ترین کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا اور مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان سے بہتری کی امید لگائی تھی لیکن انہوں نے اقتدار میں آکر ہم سب کو بری طرح مایوس کیا۔ علیم خان کا کہنا تھا کہ سیاست میں دوست بنایا کرتے ہیں نہ کہ دوستوں سے دشمنی کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ کہلانے والے لاہور شہر میں علیم خان نے ایسے وقت میں تحریک انصاف کی قیادت سنبھالی تھی جب وفاق اور پنجاب میں ن لیگ برسراقتدار تھی۔ انہوں نے تین مرتبہ مینار پاکستان پر بڑے جلسوں کا انعقاد کروایا۔ ایک وقت تھا جب علیم خان اور جہانگیر ترین کی جوڑی کو کپتان کے سٹار کھلاڑیوں کا درجہ حاصل ہو چکا تھا، اور عمران ہر مشکل ٹاسک انہی دونوں کے سپرد کرتے تھے۔ یہ دونوں بھی ہر ٹاسک حاصل کر کے دکھاتے تھے۔
الیکشن 2018 کے دوران اور اسکے بعد جس طرح جہانگیر ترین نے اپنا جہاز بھر بھر کر عمران خان کو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اراکین اسمبلی ڈلیور کئے، اس سے بھی سب آگاہ ہیں۔ لیکن بشری بی بی سے شادی کرنے اور وزیر اعظم بن جانے کے بعد عمران کا جہانگیر ترین اور علیم خان بارے رویہ اچانک تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔
اسکا پہلا ثبوت تب سامنے آیا جب علیم خان کی بجائے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور علیم کو سینئیر وزیر بنایا گیا حالانکہ ماضی میں عمران خان ان سے وزارت اعلی کا وعدہ کر چکے تھے۔ اس دوران جب علیم خان نے عثمان بزدار کی نااہلی پر تنقید شروع کی تو اچانک نیب ان کے خلاف متحرک ہو گئی اور پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔ ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ بشریٰ بی بی ترین کو پسند نہیں کرتیں جس وجہ سے وہ پارٹی سے آؤٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم کپتان اور ترین کے تعلقات تب مکمل ختم ہوگے جب ایف آئی اے نے شوگر سکینڈل میں ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ پھر جب ترین نے گرفتاری سے بچنے کے لئے تحریک انصاف کے باغیوں پر مبنی ہم خیال گروپ تشکیل دیا تو عمران کو دوبارہ سے علیم کی یاد آ گئی۔ انہوں نے 100 دن نیب کی زیر حراست رہنے والے علیم خان کو بزدار کابینہ میں دوبارہ پنجاب کا سینئر وزیر بنا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی جہانگیر ترین اور عمران خان کے در میان ناراضگی ہوئی تو علیم نے عمران کے ساتھ کھڑا رہنے کو ترجیح دی جس وجہ سے ایک طویل عرصہ تک ان دونوں کے درمیان روابط معطل بھی رہے۔ لیکن پنجاب کا سینئر وزیر ہونے کے باوجود مسلسل بے اختیار ہونے کے سبب علیم خان نے دل برداشتہ ہو چکے کر کچھ عرصہ پہلے وزارت سے استعفی دے دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ تب تک علیم خان جہانگیر ترین کے ساتھ ہاتھ ملا چکے تھے اور یہ فیصلہ بھی کر چکے تھے کہ وہ مستقبل میں سیاست ترین کے ساتھ مل کر کریں گے۔ ان حالات میں جب جہانگیر ترین اور علیم خان اپنے سابقہ کپتان کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں تو انہیں پریشانی تو ضرور ہوگی، خصوصا جب وہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر چلے تو عثمان بزدار ایک روز بھی وزیراعلی نہیں رہ پائیں گے۔
نسلہ ٹاور کے مالک عبدالقادر انتقال کر گئے
ایسے میں عمران خان کے قریبی لوگوں انہیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اس سے پہلے کے علیم خان اور جہانگیر ترین مل کر عثمان بزدار کی چھٹی کروائیں، خان صاحب خود اپنے وسیم اکرم پلس کو گھر بھجوانے کا اعلان کردیں اور پنجاب کی وزارت اعلی علیم خان کو سونپ دیں تاکہ مرکز میں ان کی حکومت بچانے کی کوشش کی جا سکے۔ دوسری صورت میں کپتان کا جانا ٹھہر گیا، صبح گیا یا شام گیا۔
At last it was time for Imran to panic and go home Urdu news