ان سے محتاط رہیں!

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
میں بہت منکسرالمزاج شخص ہوں ،عمر میں مجھ سے چھوٹوں کے ساتھ بہت محبت سے رہتا ہوں بلکہ بے تکلف بھی ہو جاتا ہوں مگر جو مجھ سے عمر میں بڑے لیکن چھوٹے لوگ ہیں ان سے اسی طرح ملتا ہوں جیسے ایسے لوگوں سے ملنے کا حق ہے ۔سہیل وڑائچ کی طرح میرے انکسار کو بھی دیکھتے ہوئے جو مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ’’بے تکلفان شہر‘‘ کا ٹائٹل دیتا ہوں بلکہ بہت عرصہ پہلے اسی عنوان کے تحت میں نے ایک کالم میں لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ فلاں صاحب ایک بار بھی کسی سے مل لیتے تھے تو ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے تھے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی مخصوص نشست پر براجمان ہو جاتے، ایسے میں اگر اس آفس کے مالک آ جاتے تو انہیں سامنے دھری کرسیوں میں سے کسی ایک کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہتے اور اس کے ساتھ ہی بیل دے کر آفس بوائے کو بلاتے اور کہتے مہمان کیلئے چائے لیکر آئو۔ شاہد نام کے ایک ایس پی پولیس نے مجھے بتایا کہ ایک شادی کی محفل میں وہ منحوس گھڑی میرے مقدر میں لکھ دی گئی تھی، جو میں نے ان سے ہاتھ ملایا تھا، بس اس کے بعد وہ میرے دفتر میں آنا جانا شروع ہو گئے اور میرے اسٹاف کے سامنے شاہد کی بجائے مجھے ’’اوئے شیدے‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ۔ایک واقعہ کا میں عینی شاہد بھی ہوں اشفاق احمد کے ایک صاحبزادے کی شادی تھی جس میں مختلف شعبوں کے زعماء شریک تھے اچانک میری نظر ان صاحب پر پڑی جو اپنے ارد گرد کے مہمانوں کے ساتھ بے تکلفی کے مظاہرے کر رہے تھے میرے ساتھ ریڈیو کے ایک بہت سینئر آفیسربیٹھے تھے جو بہت ’’شرارتی ‘‘ تھے میں نے انہیں چٹکی کے اشارے سے ان کی توجہ اسی یکطرفہ بے تکلف صاحب کی طرف دلا ئی وہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ صاحب کیا ہیں، کیا کرتے ہیں اور ان کا علاج کیا ہے چنانچہ انہوں نے ایک رقعہ لکھا جس میں مضمون یہ تھا کہ محترم میں نے آپ کو مدعو نہیں کیا تھا لہٰذا براہ کرم جتنی جلدی ہوسکے آپ یہاں سے دفع ہو جائیں اور آخر میں لکھ دیا ’’آپ کا نیاز مند اشفاق احمد ‘‘ یہ رقعہ ایک نوجوان کے ہاتھ تھما دیا گیا اور اس نے آناً فاناً بے دخلی کا یہ حکم نامہ انہیں پہنچا دیا جو پڑھتے ہی موصوف نے وہاں سے دوڑ لگا دی ۔

مجھے یکطرفہ بے تکلفان شہر سے اکثر پالا پڑتا رہا ہے، اس طرح کے کسی صاحب سے زندگی میں ایک دفعہ کسی ہجوم میں ملاقات ہوئی اور میری بدقسمتی کہ میں ان کے سامنے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کر بیٹھا ،اس کے بعد میں ہوتا ہوں میر ی بدقسمتی اور یہ یکطرفہ بے تکلف صاحب !اس کے بعد موصوف نے کیسے کیسے معززین کے سامنےاپنی بے تکلفی سے مجھے ذلیل کیا ۔ابن انشا نےاپنے ایک استاد کے بارے میں لکھا کہ وہ بہت منکسرالمزاج شخص تھے چنانچہ اپنے نام کے ساتھ ’’ننگ اسلاف‘‘ ضرور لکھتے چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی انہیں ’’ننگ اسلاف‘‘ کہنا شروع کر دیا خود میں نے بھی ایک بار لکھا تھا کہ اگر کسی شخص کو عزت دینے سے اس کی بدہضمی کا اندیشہ ہو تو اسے عزت دینے سے پرہیز کرنا چاہئے کہ ایسا شخص سوچتا ہے کہ جو شخص مجھ ایسے کو عزت دے رہا ہے وہ معزز کیسے ہو سکتا ہے۔

مگر پرابلم یہ ہے کہ میں جن سینئرز کی صحبت میں بیٹھا ہوں انہی نے میری عادتیں خراب کی ہوئی ہیں، احمد ندیم قاسمی، مشتاق احمد یوسفی، اشفاق احمد، اے حمید، شفیق الرحمان، ضمیر جعفری، منیر نیازی، انتظار حسین، محمد خالد اختر، احمد فراز، سید محمد کاظم اور کتنے ہی نامور ادیب ہم نوجوانوں کے ساتھ نوجوان ہی بن جاتے تھے اور ہم اس لبرٹی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر طرح کی وہ بات ان کے سامنے کہہ دیتے تھے جس پر وہ اسی طرح ہنس پڑتے جیسے ہم ان کی اسی طرح کی گفتگو پر قہقہے لگانے لگتے تھے۔ ایک دفعہ کسی مشاعرے کے بعد ہوٹل میں قیام کے دوران ضمیر جعفری، امجد اسلام امجد بیٹھے تھے ضمیر صاحب چار پائی پر غنودگی کے عالم میں بیٹھے تھے جبکہ میں اور امجد اسلام ایک دوسرے سے جملہ بازی کر رہےتھے یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہم رکیک حملے کر رہےتھے اس دوران ضمیر صاحب نے اپنی رائے دی اور کہا آج پتہ چلا ہے کہ جب تم دونوں کو کوئی تیسرا شخص نہیں ملتا تو تم آپس میں نیٹ پریکٹس کرتے ہو یہ کہہ کر وہ اٹھ بیٹھے اور اس ’’نیٹ پریکٹس‘‘ میں تیسرے کھلاڑی کے طور پر خود بھی شریک ہو گئے۔ ہمارے بزرگوں میں سب سے زیادہ احمد ندیم قاسمی ہم سے فری ہو جاتے تھے ایک دفعہ خالد احمد سے کہنے لگے تمہاری طبیعت میں اتنی جلد بازی ہے کہ میرا شعر

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا

اگر یہ شعر تم کہتے تو اس کی شکل یوں ہوتی

کون کہتا ہے مر جائوں گا

احمد سلیم: کلاسیکی مارکسسٹ اور جبر و اختیار کی جدلیات

میں سمندر میں اتر جائوں گا

Back to top button