آستانہ عالیہ!
تحریر:عطاالحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ
پہلے تو صرف ایک آستانہ عالیہ تھا، جہاں ایک اللّٰہ کے ولی فالج، لقوہ، کالی کھانسی، دائمی قبض، گردوں کی خرابی، جنوں بھوتوں کو ’’گھر بدر‘‘ کرنے، گونگوں، ’’بولوں‘‘ اور طویل عرصے سے بستر علالت پر پڑے مریضوں کا علاج صرف ایک پھونک سے کر کے انہیں چنگا بھلا کر دیتے تھے، چنانچہ اس آستانہ عالیہ پر ہزاروں لوگ حاضری دیتے اور من کی مرادیں پاتے۔ اللّٰہ کے اس ولی کی شہرت دور دراز مقامات تک پہنچی اور یہ انہی کا فیض ہے کہ اب پاکستان کے بہت سے شہروں میں آستانہ عالیہ کھل گئے ہیں اور فی الحال ہزاروں تو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں پھونک اور ایک دم کے نتیجے میں ایک دم ہر بیماری دفع دور ہو جاتی ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ آستانہ عالیہ کے پیر فقیر پھونکیں مارتے مارتے ہلکان ہو جاتےہیں مگر اس مریض کی ظاہری حالت میں بظاہرکوئی فرق نظر نہیں آتا۔ خصوصاً جن نکالنےکیلئے انہیں بہت زیادہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے، اس کے علاوہ جن کے حسب نسب اور عقیدے کے حوالےسے بھی بہت انوسٹی گیشن کرنا پڑتی ہے، مثلاً جس شخص کو جن ’’چمڑا‘‘ ہوتا ہے، وہ اپنے ساتھ آئے ہوئے شخص کے ہاتھوں سے نکلنے کی تگ و دو کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خوفناک آوازیں بھی نکالتا ہے۔ اس دوران آستانہ عالیہ کے درویش اس سے سوال جواب کرتے ہیں جو اصل میں جن سے پوچھے جا رہے ہوتے ہیں، مثلاً تمہارا مذہب کیا ہے، تم عیسائی ہو، ہندو ہو، سکھ ہو یا مسلمان؟ اس سوال سے جن کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ ہتھیار پھینک دیتا ہے اور نارمل دکھائی دینے لگتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تم آستانہ عالیہ سے منسلک ہو گئے ہو، پھر وہ جن آستانہ عالیہ والے پیر صاحب کے ہاتھ چومتا ہے اور ’’نیواں نیواں‘‘ وہاں سے نکل جاتا ہے۔
اب الحمدللّٰہ آستانہ عالیہ جگہ جگہ کھل گئے ہیں، چنانچہ بعض مقامات پر مشرقی وضع قطع کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، حضرت داڑھی مونچھ کے محتاج نظر نہیں آتے اور ان میں سے کئی ایک تو صرف نوجوان نہیں، بالکل بچے ہیں جو اپنے والد صاحب کے ساتھ لگے بیٹھے ہوتے ہیں، ان کی ولایت کے قائل باری باری ان کے پاس آتے ، ان کے پائوں کو چھوتے اور ان کی خدمت میں نذرانہ پیش کرکے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس دوران ایک اور نسل بھی سامنے آئی، یہ باریش لوگ ہیں۔ ان سب نے مخصوص طرز کی پگڑیاں باندھی ہوتی ہیں اور یہ گول دائرے میں لڈیاں ڈال کر اپنے مرشد کو راضی کرتے ہیں، انہیں باقی آستانوں کی طرح اس آستانے پر بھی یقین ہے کہ ان کی دلی مرادیں پوری ہوںگی۔ اب اس نوع کے روحانی آستانے اتنی تعداد میں کھل گئےہیں کہ کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو آپ کی فون کال پر آپ کے ’’آستانے‘‘ پر بھی آ جاتے ہیں، تاہم یہ سہولت ہر آستانے پر میسر نہیں ہے۔
میں کبھی اس بات پر بہت کڑھا کرتا تھاکہ ہمارے لوگ مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں، مگر اب وہ مذہب سے دور نہیں بلکہ بہت دور تک خود مذہب کے اندر گھس گئے ہیں، یہ صرف پاکستان یا مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ ہندوئوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے عامل آ چکے ہیں، جن کے سامنے ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے، یہ عامل حاجت مندوں کو صرف چھوتے ہیں اور وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں، تاہم مردوں اور عورتوں کو چھونے کے ’’مقامات‘‘ مختلف ہیں، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، مقام کوئی بھی ہو وہ عامل سے زیادہ مقدس نہیں ہوتا۔ اس دوران میں نے ٹک ٹاک پر ایک پادری کو بھی اپنی روحانیت کا سکہ جماتے ہوئے دیکھا، شروع شروع میں یہ مناظر دیکھ کر کوفت ہوئی اور سمجھا شاید لوگوں کو بےوقوف بنایا جا رہا ہے، میں خود ایک پیر خاندان کا فرد ہوں جن کا فیض صدیوں سے جاری ہے۔ خود میں نے اپنے اندر ایک نہیں کئی دفعہ محسوس کیا کہ مجھے خلق خدا کی طبی ضرورتوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے چنانچہ میں نے دو تین دفعہ متعدد مریضوں کو دم کیا تو وہ ایک دم ٹھیک ہوگئے۔ تب مجھے یقین ہوا کہ آستانہ عالیہ سے واقعی لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں اور وہاں کسی کو بے وقوف نہیںبنایا جاتا۔ میں نے ابھی بتایا تھا کہ میں خود ایک روحانی خانوادے کا فرد ہوں۔ اس سے آگے میں کچھ نہیں
کہوں گا عقلمندکیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔