میری کہانی!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

حفیظ جالندھری صاحب کی شگفتہ طبعی کا یہ عالم تھا کہ ٹیلی ویژن والوں نے ان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔ یہ مشاہیر کی دستاویزی فلموں کی ایک کڑی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی وفات کے بعد آنے والی نسلوں کیلئے ان مشاہیر کی زندگی کی جھلکیاں محفوظ کرلی جائیں۔ جب یہ فلم مکمل ہو گئی اور حفیظ صاحب نے اس کا چیک وصول کرلیا تو پروڈیوسر کو مخاطب کرکے اسے کہا تم سمجھتے ہو کہ میں مر جائوں گا اور تم یہ ڈاکو منٹری چلائو گے اور پھر انگوٹھا ہلاتے ہوئے بولے ’’میں نے مرنا ورنا کوئی نہیں‘‘

کراچی میں پی آئی اے والوں کا مشاعرہ تھا۔ ہزاروں کے مجمعے میں حفیظ صاحب کلام سنانے کیلئے اٹھے تو انہوں نے کلام سنانےسے پہلے ایک چھوٹی سی تقریر کی جس میں جہاد کشمیر کے سلسلے میں اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس جہاد کے دوران محاذ جنگ پر میری بائیں ٹانگ میں چوبیس گولیاں لگی تھیں۔ مجھ سے حفیظ کا بیان ہضم نہ ہوا چنانچہ جب وہ کلام سنا کر واپس اپنی نشست پر آئے تو میں نے ان کے کان میں کہا ’’ٹانگ چھوٹی اور گولیاں زیادہ، حفیظ صاحب یہ گولیاں کچھ کم نہیں ہو سکتیں؟‘‘ مگر اس روز میں نے دیکھا کہ وہ کچھ سنجیدہ سے ہو گئے اور اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ حفیظ صاحب خود کو صرف شاعر اسلام ہی نہیں مجاہد اسلام کے روپ میں دیکھنے کے خواہش مند بھی تھے۔ ہاں یہ جو میں نے کسی اور جگہ اپنے بچپن کے حوالے سے ایک مشاعرے کا احوال بیان کیا تھا جس میں حفیظ صاحب نے شرکت سے معذوری ظاہر کی تھی اور مجھے ان کا انکار اچھا نہیں لگا تھا تو اس انکار کا پس منظر مجھےبہت دیر میں سمجھ آیا۔ دراصل حفیظ صاحب کو یہ احساس تھا کہ ہمارا معاشرہ شاعر کو دوسرے اور بعض صورتوں میں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جبکہ شاعر دیدۂ بینا ئے قوم ہوتا ہے اور یوں اس کی حیثیت کسی بڑے سے بڑے وی آئی پی سے کم نہیں ہوتی اور پھر شاعر بھی اگر حفیظ صاحب کے رتبے کا ہو یعنی قومی ترانے کا خالق، نئی لے کے گیتوں کا بانی ہو، غزل میں اس کا کوئی حریف نہ ہو، شاعروں میں اس کے سامنے کوئی جم نہ سکے، صرف یہی نہیں وہ نئے اردو افسانے کے بانیوں میں سے ہو۔بچوں کیلئے اس جیسی نظمیں کسی اور نے نہ لکھی ہوں تو وہ اگر محسوس کرلے کہ اسے جہاں بلایا جا رہا ہے قناتوں شامیانوں، کرسیوں، دعوت ناموں، پوسٹر، کراکری اور کھانے کے اخراجات ادا کئے جا رہے ہیں اور یہ سب اہتمام جس کیلئے کیا جا رہا ہے وہ شاعر ہے جس نے شعر سنانا ہیں مگر اس شاعر کو ’’ادب کی خدمت‘‘ کا جھانسہ دے کر ’’جھونگے‘‘ کے طور پر بلایا جائے تو پھر شاعر کو وہی جواب دینا چاہیے جو حفیظ صاحب نے مجھے دیا تھا اور جو مجھے اس وقت اچھا نہیں لگا تھا تاہم یہ حقیقت ہے کہ حفیظ نے شاعر کو اس کا مرتبہ یاد دلایا اور اسے اس احساس سے بہرہ ور کیا کہ وہ وی آئی پی ہے چنانچہ میں نے حفیظ صاحب کو وزرائے اعظم بلکہ جنرل صاحبان سے ملتے دیکھا اور نوٹ کیا کہ اس دوران ان کی گردن کبھی خمیدہ نہ ہوئی بلکہ اطمینان و بے باکی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے حفیظ صاحب کو اگر کہیں ان کا حق نہیں ملتا تھا تو وہ اپنا حق چھین لیا کرتے تھے۔ اکیڈمی آف لیٹرز کی اہل قلم کانفرنس میں میں نے دیکھا کہ وہ اسی صف میں اور اس نشست پر جا کر بیٹھے جہاں وہ بیٹھنا چاہتے تھے چنانچہ پروٹوکول والے ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ ایوان صدر کے مشاعرے میں جس کے صدر حفیظ جالندھری تھے اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل مسیح الدین احمد صدیقی نے اسٹیج سے اعلان کیا کہ آج صدر پاکستان بھی اس محفل میں مشاعرہ میں موجود ہیں اس پر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے حفیظ صاحب نے باآواز بلند کہا ’’یہ مشاعرہ ہے اور اس وقت صدر میں ہوں‘‘۔ میں نے اکثر یہ بھی دیکھا کہ ٹیلی ویژن پر کوئی مشاعرہ ہے، ٹی وی کی گاڑی حفیظ صاحب کو لینے گئی ہے اور حفیظ صاحب بہت تاخیر سے پہنچے ہیں۔ پروڈیوسر نے بعد میں بتایا کہ گاڑی تو وقت پر پہنچ گئی تھی مگر حفیظ صاحب نے کافی دیر تک ہمیں وہاں کھڑے رکھا اور پھر بعد میں اسی لباس میں ہمارےساتھ چل دیئے جو انہوں نے ہمارے پہنچنے پر پہنا ہوا تھا۔ دراصل حفیظ صاحب کا یہ رویہ بھی ٹیلی ویژن کے ان افسروں کو نیچا دکھانےکیلئے تھا جو شاعر کو گری پڑی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک دفعہ میرے گھر پر دعوت تھی میں نے انہیں فون کیا آپ کے بغیر مجھے یہ محفل سونی سونی لگے گی۔ وہ بولے تمہارا گھر نئی بستی میں ہے موسم بھی خراب ہے تم کسی دوست کو میری طرف بھیج دو۔ میں نے مسعود بھٹی سے کہا کہ وہ جا کر حفیظ صاحب کو لے آئے۔ میرا خیال تھا کہ حفیظ صاحب اسے ایک گھنٹہ بٹھائیں گے اور جب وہ پہنچیں گے تو تقریب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہو گی مگر میں نے دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد حفیظ صاحب کار میں سے اتر رہے تھے۔ ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی میں نے مسعود بھٹی سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیسے آ گئے۔ اس نے بتایا کہ میں نے حفیظ صاحب کے گھر پر پہنچ کر گھنٹی دی، انہوں نے کہا میں آ رہا ہوں اور پھر وہ آرام سے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئے اور راستے میں بہت مزے مزے سے باتیں کرتے رہے۔ ایک اور موقع پر میں نے انہیں اپنے گھر پر ایک دعوت میں مدعو کیا مگر اس روز حفیظ صاحب نہ آئے چند دنوں بعد ان کا خط ملا جس میں میرا بھیجا ہوا لفافہ بھی موجود تھا۔ اس لفافے پر ڈاکخانے والوں نے جو مہر ثبت تھے وہ تقریب سے اگلے روز کی تھی یعنی حفیظ صاحب کو میرا دعوت نامہ تقریب کے اگلے روز ملا۔ اسکے باوجود انہوں نے مجھے مطلع کرنا ضروری سمجھا۔

میری کہانی!

چنانچہ لکھا کہ تم مجھے بہت عزیز ہو، یہ کیسے ممکن تھا کہ تم مجھے بلاتے اور میں نہ آتا مگر ڈاکخانے والوں کو یہ منظور نہ تھا۔ اس روز میں حفیظ صاحب کی اس شفقت پر آبدیدہ ہو گیا۔ اگر اردو ادب کی یہ دیو قامت شخصیت مجھ ایسے کم مایہ کے سامنے یہ وضاحت نہ بھی کرتی تو کیا فرق پڑتا؟۔

Check Also
Close
Back to top button