کیا بندیال پاکستان کے بدنام ترین چیف جسٹس کہلائیں گے؟
سینئر صحافی اور کالم نگار محمد بلال غوری نے کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں کر تو کچھ نہ سکے البتہ اس دوران عدلیہ جس قدر بے توقیر ہوئی ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ان کا سب سے بڑا جرم ذاتی انا کی خاطر عدلیہ کو تقسیم کرنا ہے ۔اسی تقسیم کے باعث عدلیہ بے وقعت اور بے توقیر ہوئی اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اپنی ایک تحریر میں بلال غوری لکھتے ہیں کہ زوال اور انحطاط کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ہرنیا آنے والا دن گزر جانے والے دن سے بدتر محسوس ہوتا ہے۔حال کی نسبت ماضی بہتر لگنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹرکوں کے پیچھے ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘جیسے جملے دیکھنے کو ملتے ہیں. چونکہ زوال و انحطاط کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اس لئے ہمارے ہاں کوئی ادارہ اس سے محفوظ نہیں ۔عدلیہ میں بھی کم وبیش اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔مولوی تمیز الدین کے مقدمہ میں جسٹس منیر نے وہ بدنامی سمیٹی کہ نظریہ ضرورت گالی بن گیا ۔ ہر دور میںاعلیٰ عدلیہ اس نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کا دعویٰ کرتی رہی لیکن یہ گڑا مردہ پھر باہر آجایا کرتا ہے ۔تاریخ کے طالب علم سمجھتے تھے کہ جسٹس منیر کوچہ عدل سے جس طرح بے آبرو ہوکر نکلے ،اس طرح کی انگشت نمائی شاید کسی اور قاضی القضا کے حصے میں نہ آئے۔لیکن جسٹس ثاقب نثار نے یہ مغالطہ دور کردیا. بلال غوری کہتے ہیں کہ اگرچہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے بھی جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ اپنا نام لکھوانے کی بھرپور کوشش کی مگر یہ اعزاز جسٹس عمر عطا بندیال کے حصے میں آیا۔انہوں نے جمود توڑ کر ترقی معکوس کے سفر کو تیز تر کردیا ۔28ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اُٹھانے والے جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی ساکھ متاثر کرنے کے طرزعمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا،اس بارے میں کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں کر تو کچھ نہ سکے البتہ اس دوران عدلیہ جس قدر بے توقیر ہوئی ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے ماسٹر آف روسٹر کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اوراہم ترین سیاسی و آئینی مقدمات مخصوص ہم خیال جج صاحبان کے سپرد کرکے ’’بنچ فکسنگ‘‘کے مرتکب ہوئے۔آرٹیکل 63Aکی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا جوفیصلہ دیا ،اسے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا گیااور یہی متنازع فیصلہ سیاسی عدم استحکام کی بنیاد بنا۔ بلال غوری کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہو یا پھر سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی تقرری کا معاملہ ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سب معاملات کو آئینی تقاضوں کے بجائے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا. انہوں نے آڈیو لیکس جیسے مقدمات میں اعتراضات کے باوجود بنچ سے الگ نہ ہوکر بدترین روایت ڈالی ۔بجاطور پر چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ یہ ’’کورٹ آف لا‘‘ نہیں بلکہ ’’کورٹ آف مدر اِن لا‘‘ ہے۔ان کے دور میں من پسند افراد کو انصاف فراہم کرنے کی خاطر اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی مقدمات کے لئے وقف کردیا گیاجس کی وجہ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقع پران کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ بھی اپنے پیشرو چیف جسٹس کی طرح ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ حاضرین کے چونک جانے پر انہوں نے اپنے ارادوں کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کی ’’میاں صاحب یعنی جسٹس ثاقب نثار نے ایک موقع پر علی الاعلان کہا تھا کہ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں، ڈیم بنانا اور ملکی قرضے اتارنا۔ میں بھی چند ڈیم بنانا چاہوں گا۔ مقدمات کے غیر ضروری التوا کو روکنے کیلئے ڈیم، غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے کیخلاف ڈیم، جعلی گواہوں اور غلط شہادتوں کیخلاف ڈیم۔ اور میں بھی قرض اتارنے کی کوشش کرونگا، زیر التوا مقدمات کا قرض جنہیں پہلی فرصت میں نمٹایا جانا چاہئے‘‘۔مگر ثاقب نثار کے ڈیم کی طرح آصف سعید کھوسہ کا ڈیم بھی ادھورا رہ گیا۔ مثال کے طور پر یکم جنوری کو سپریم کورٹ میں 41102مقدمات زیر التوا تھے، 15جنوری تک چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 1362مقدمات نمٹا دیئے گئے، یوں زیر التوا مقدمات کی تعداد 39742رہ گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو 38750مقدمات زیر التوا تھے۔ مگر جب وہ رخصت ہوئے تو لگ بھگ 50ہزار مقدمات جمع ہوچکے تھے ۔ بلال غوری کہتے ہیں کہ اب جسٹس عمر عطا بندیال جارہے ہیں تو سپریم کورٹ میں تقریباً55ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔مگر جسٹس عمر عطا بندیال کا سب سے بڑا جرم ذاتی انا کی خاطر عدلیہ کو تقسیم کرنا ہے ۔اسی تقسیم کے باعث عدلیہ بے وقعت اور بے توقیر ہوئی ،عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔وہ اپنے اختیارات سینئر جج صاحبان کی مشاورت سے استعمال کرتے تو اس رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچا جا سکتا تھا۔مگر انہوں نے جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار پر سبقت لے جانے کی کوشش
بندیال نئے چیف جسٹس کے لئے کون سی بارودی سرنگیں چھوڑ گئے؟
میں نئے ریکارڈ قائم کئے۔