بندیال نئے چیف جسٹس کے لئے کون سی بارودی سرنگیں چھوڑ گئے؟

سینئر صحافی اور کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع وہ پہلی بارودی سرنگ ہے جو جسٹس عمر عطا بندیال اپنے بعد چیف جسٹس بننے والے قاضی فائز عیسی کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں ہے اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں تقسیم ، جونئیر ججوں کی تقرری ، جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس اور ملک میں عام انتخابات جسے معاملات کو دیکھا جاۓ تو یہ کہنا غلط نہیں کہ قاضی فائز عیسی کے لئے بہت سی بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں. اپنی ایک تحریر میں مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس پرسکون ماحول میں عہدہ نہیں سنبھال رہے‘ اس سے پہلے کسی بھی چیف جسٹس کے لیے اتنا مشکل ماحول نہیں تھا۔ پریکٹس اور پروسیجر بل ان کے لئے پہلا چیلنج ہو گا۔کیوں کہ سبکدوش چیف جسٹس جان بوجھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ کر کے نہیں جا رہے۔ انھوں نے اس قانون کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔ لیکن انھوں نے حکم امتناعی کے بعد اس کی کوئی سماعت نہیں کی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ملٹری کورٹس کی سماعت کے دوران یہ کہہ کر اٹھ گئے تھے کہ جب تک سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بھی بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پہلے اس قانون کا فیصلہ کیا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان جتنا تناؤ رہا ہے۔ اس میں شاید عمر عطا بندیال نے قاضی فائز عیسیٰ کے اس موقف کے بعد یہی بہتر سمجھا کہ اب اس کی سماعت نہ کی جائے اور اس کو ایک بارودی سرنگ کے طور پرآنے والے چیف جسٹس کے لیے چھوڑ دیا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ اس سے کیسے نبٹتے ہیں۔ یہ پہلی بارودی سرنگ ہے‘ جسے جسٹس فائز کو عبور کرنا ہوگا۔ اس قانون میں چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے اس اختیار کو ریگولیٹ کروانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے قانون کو معطل کر دیا۔ لیکن قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا۔
مزمل سہروردی سوال کرتے ہیں کہ کیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس قانون سے نبٹنے کے لیے فل کورٹ بنائیں گے؟ کیا بنچ بنانے کے اختیارات کے لیے چیف جسٹس کسی فل کورٹ میں از خود رولز بنا لیں گے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ سپریم کورٹ میں جس قدر تقسیم ہے کہ عمر عطا بندیال تو فل کورٹ بنانے سے انکار کرتے رہے بلکہ ہمیں تو یہ بھی بتایاجاتا رہا کہ سپریم کورٹ میں ایسا ماحول ہی نہیں کہ سب جج اکٹھے بیٹھ سکیں۔ کیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایسا کر سکیں گے۔ یہ بھی ان کا ایک امتحان ہوگا۔ اسی طرح جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی بھی ایک اہم مسئلہ ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پسند اور نا پسند کی بنیاد پر جونئیر ججز کی تعیناتی کے خلاف رہے ہیں۔ ان کی رائے رہی ہے کہ ہائی کورٹس سے صرف سنیارٹی کی بنیاد پر ہی ججز کو سپریم کورٹ میں آنا چاہیے ورنہ ایک شفاف طریقہ ہونا چاہیے ۔ پسند یا نا پسند پر یہ فیصلے نہیں ہونے چاہیے۔ کیا ماضی میں جو جونئیر ججز پروموٹ ہوئے ہیں ان کو واپس بھیجنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔ کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں ان جونئیر ججز کو واپس بھیجنا ممکن ہے۔ لگتا ہے کہ جسٹس فائز عیسی اس معاملہ کا مستقل طور پر حل کر دیں گے۔ مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس موجود ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس پر غور کے لیے سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس نہیں بلارہے تھے۔ انھوں نے آخر تک یہ اجلاس نہیں بلایا۔ جب کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بار بار اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ یہ بھی ایک نا مکمل ایجنڈا ہے جو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ وہ اس معاملہ کو سلجھا کر جا سکتے تھے، لیکن وہ التوا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پتہ نہیں انھوں نے اتنی دیر سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس نہ بلا کر جسٹس مظاہر نقوی کی حمایت کی ہے یا ان کے ساتھ دشمنی کی ہے۔ اور اب انھیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس ضمن میں جسٹس مظاہر علی نقوی کی جانب سے بھی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے خلاف شکایات پر اجلاس بلایا جائے۔ لیکن نہیں بلایا گیا اور معاملہ آج بھی موجود ہے۔ ملک میں عام انتخابات کا معاملہ بھی ایک اہم معاملہ ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے ہوگا۔ قومی اسمبلی نو اگست کو تحلیل ہوئی تھی۔ کچھ سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ سے رجوع بھی کر چکی ہیں۔ پہلے تو ایسی درخواستیں شام کو دائر ہوتی تھی اور صبح سماعت کے لیے مقرر ہو جاتی تھی لیکن اس بار اس معاملہ سے جان بوجھ کر دوری رکھی گئی۔ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی گئیں۔ مزمل سہروردی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار ہی کر رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس معاملہ کو دیکھیں۔ شاید ہم خیال بنچ کا بھی پنجاب کے انتخابات کی تاریخ دیکر کافی دل ہلکا ہوگیا ہے اور وہ اب کوئی ایڈونچر کے موڈ میں نہیں تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے چیلنجز خاصے بڑے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جو تقسیم در تقسیم ہے کو اکٹھا کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ ایسے میں فل کورٹ کیسے ہوگا۔ ملکر فیصلے کیسے ہونگے۔ بنچ کیسے بنیں گے۔ جن ججز کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سائیڈ لائن کیا ہوا تھا۔ جنھیں سینئر ہونے کے باوجود اہم مقدمات

سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

نہیں دیے جا رہے تھے اب انھیں مقدمات ملیں گے۔ جنھیں پہلے مل رہے تھے کیا وہ اب سائیڈ لائن ہو جائیں گے؟ ۔ ان تمام سوالوں کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا.

Back to top button