بلاول بھٹو نے اسحاق ڈار کی جگہ نائب وزیراعظم بننے کی آفر ٹھکرا دی

وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے تفصیلی ملاقاتوں کے باوجود نون لیگی قیادت اپنے اہم ترین اتحادی کو منانے میں بظاہر ناکام ہو گئی ہے اور بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر اپنے والد صدر آصف زرداری کے مشورے کے برعکس وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انہیں وزیر خارجہ کے علاوہ نائب وزیراعظم بنانے کی بھی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ پچھلے ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو سے اسلام اباد میں ملاقات کی تھی جبکہ گزشتہ روز نائب وزیراعظم نے بلاول سے ملاقات کرتے ہوئے تفصیلی بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی بھی موجود تھے تاہم بلاول بھٹو کابینہ میں شامل نہ ہونے کے اپنے پرانے موقف پر قائم رہے۔ باخبر حکومتی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو کو منانے میں ناکامی کے بعد نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو ان کے پاس بھیجا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار نے بلاول بھٹو کو وفاقی کابینہ میں وزیر خارجہ کا عہدہ دینے کی پیشکش کی، بلاول کے انکار پر اسحاق ڈار نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ ان کی جگہ نائب وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں، تاہم بلاول بھٹو نے یہ تمام آفرز قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے وزیراعظم اور نائب وزیراعظم سے ملاقاتوں میں یہ موقف اختیار کیا کہ فروری 2024 کے الیکشن میں عوام نے نون لیگ کو ووٹ دیا ہے لہذا کابینہ بنانا اور حکومت کرنا اسی کا حق ہے اور پیپلز پارٹی اس میں حصے دار نہیں بننا چاہتی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ویسے بھی پچھلے 10 ماہ میں نون لیگی قیادت نے اپنی اہم ترین اتحادی جماعت کے ساتھ جو رویہ اپنایا اس کے بعد بلاول بھٹو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی جماعت کابینہ کا حصہ بن بھی جائے تو دونوں کے معاملات زیادہ عرصہ نہیں چل پائیں گے۔ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کابینہ کا حصہ نہ بننے کے باوجود نون لیگی حکومت کے اتحادی رہیں گے اور اسے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

ذرائع کے مطابق ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری اور نائب وزیر اعظم کے درمیان پنجاب میں حکومت سازی کے تحریری معاہدے پر بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر اپنی پارٹی کی طرف سے حکومتی فیصلوں میں اعتماد میں نہ لیے جانے اور مشاورت نہ کرنے پر رہنماؤں کا دباؤ ہے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی بار بار کی یقین دہانیوں اور نون لیگ سے تحریری معاہدے کے باوجود وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نہ تو پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین پنجاب اسمبلی کے کہنے پر کوئی سرکاری ٹرانسفر یا پوسٹنگ کرتی ہیں اور نہ ہی اپنی اتحادی جماعت کو کابینہ میں اچھی وزارتیں دینا چاہتی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری ماضی قریب میں مختلف فورمز پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شکایت کر چکے ہیں کہ حکمران جماعت فیصلہ سازی میں پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیتی۔ ان شکایات کی روشنی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار کو چیئرمین پیپلزپارٹی سے ملاقات کرکے ان کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔ گزشتہ ماہ کے اخر میں دونوں پارٹیوں کی کمیٹیوں کی ملاقات میں پنجاب میں پاور شیئرنگ بارے مختلف امور پر اتفاق رائے ہوگیا تھا جب کہ وفاق میں حکومت کی قیادت کرنے والی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعت کو صوبے کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس میٹنگ میں پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنرپنجاب سردار سلیم حیدرخان، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سید حسن مرتضیٰ، سید مخدوم احمد محمود، ندیم افضل چن اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی شریک ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور مریم اورنگزیب شریک ہوئے تھے۔ تاہم اسکے باوجود مریم نواز پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل کرنے سے انکاری ہیں۔

اس سے پہلے نومبر میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں اہم کردار ادا کرنے کے چند روز بعد بلاول بھٹو زرداری نے ہم آہنگی کے فقدان پر حکومت پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت، عدالتی کمیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مساوی نمائندگی کو یقینی نہ بنا کر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی حمایت سے اپنی حکومت بنائی، جس کے پاس قومی اسمبلی میں ووٹوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

کیا PTI طالبان کے ساتھ ملکر پاکستان پر یلغار کرنے والی ہے

یاد رہے کہ اگرچہ، پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہے لیکن اس نے صدر پاکستان، چیئرمین سینیٹ اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز سمیت کئی آئینی عہدے حاصل کر رکھے ہیں۔ تاہم نون لیگ کے وزیراعظم شہباز شریف کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں پیپلز پارٹی کی قیادت ناراض ہو کر ان کی حکومت سے ہاتھ نہ کھینچ لے۔ اس صورتحال میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بلاول بھٹو کی جانب سے کابینہ میں شمولیت سے انکار کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

Back to top button