کیا بلاول بھٹو وزیر اعظم کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں؟

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے بارھویں عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وفاق میں بغیر اتحاد کے حکومت سازی کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی شام مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے دیگر جماعتوں کو حکومت سازی میں شراکت داری کی دعوت دے دی ہے۔اگر پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت کے الیکشن میں اُترتی تو یقینی طورپر حکومت سازی کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس مختلف قسم کے آپشنز ہوتے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگلا منظر نامہ کیا بننے جارہا ہے؟وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی تشکیل کس نوعیت کی ہوگی؟ آزاد اُمیدواروں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا پی ٹی آئی اپنے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے ساتھ کسی چھوٹی سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے گی؟جوڑ توڑ کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی اور مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو کیسے بلیک میل کریں گی؟

سیاسی مبصرین الیکشن کے نتائج کو ایک حد تک غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔ تاہم یہ نتائج پاکستان تحریکِ انصاف اور اُس کے حامیوں کے لیے عین متوقع ہوں۔ بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی آخری اُمید اُن کے ووٹرز ہی تھے۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو یقین تھا کہ اُن کا ووٹر بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے گا اور نتیجہ بدلنے کی صورت میں پارٹی کی مشکلات میں کمی آئے گی۔یہ نتائج مسلم لیگ ن اور اُس کے حامیوں کے لیے غیر متوقع ہیں، کیونکہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ ن اتنی نشستیں لے پائے گی کہ اُس کو حکومت سازی کے لیے کسی دوسری بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ میاں نوازشریف کی واپسی سے پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی اور انتخابی نتائج بھی مختلف آئیں گے مگر یہ خیال پوری طرح درست ثابت نہ ہو سکا۔

تاہم اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ وفاق اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ممکنہ طور پر کس طرح کا منظر نامہ بننے جا رہا ہے؟

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کی برتری نے وفاقی حکومت کی تشکیل میں دشواری پیدا کردی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر وفاقی حکومت کی تشکیل کرسکتی ہیں، تاہم دوسری جماعتوں سے اتحاد کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔مگر ایسی صورت حال میں جوڑ توڑ جہاں ہوگا وہاں ایک دوسرے کو خوب بلیک میل بھی کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کئی بار مسلم لیگ ن سے اتحاد نہ کرنے کہہ چکے ہیں۔بلاول اپنے مستقبل کی سیاست کو مسلم لیگ ن مخالف بیانیہ کی بنیاد پر فروغ دے کر اُس نسل کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو مسلم لیگ ن سے نالاں ہے۔

مگر آصف علی زرداری کا سیاسی انداز مختلف ہے تاہم یہ بلاول کو اگلا وزیرِ اعظم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے مابین ممکنہ طورپر کس طرح معاملات طے پاسکتے ہیں؟

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’یقینی طور پر پی ڈیم ایم طرز کی حکومت بنے گی اور پیپلز پارٹی اچھے طریقے سے اقتدار میں اپنا حصہ لے گی۔ صدارت پیپلزپارٹی کے حصہ میں آسکتی ہے۔‘

اب سوال یہ ہے کہ اگلا وزیرِ اعظم کون ہوگا؟ ایک طرف میاں نوازشریف اُمیدوار ہیں تو دوسری طرف آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو وزیرِ اعظم بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے حلقوں کے مطابق یہ بات کہی گئی تھی کہ اگر دوتہائی اکثریت آئی تو میاں نواز شریف ورنہ شہباز شریف ممکنہ وزیر اعظم ہوں گے لیکن ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

تاہم دوسری جانب بعض دیگر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی کی مقبول سیاسی جماعت اور حکمران والدین کی نسبت سے پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو ملک کے وزیراعظم بننے کی شدید خواہش میں مبتلا ہیں تاہم انتخابی نتائج کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب وزیراعظم کیلئے واحد آپشن بلاول بھٹو وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں؟ مبصرین کے مطابق انتخابات کے حالیہ نتائج کے پیش نظر کوئی ایک جماعت بمشکل ہی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے گی، تاہم اعلیٰ اور اہم مناصب کی باہمی تقسیم کے سمجھوتے پر انہیں وزیر خارجہ کی وفاقی سطح کا کوئی دوسرا منصب حاصل ہوجائے گا کیونکہ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) اور آزاد امیدواروں کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اب تیسری پوزیشن میں آتی ہے اس لئے دانندگان سیاست کا ہی نہیں بلکہ وافقان حال کا بھی یہی کہنا ہے کہ حالات کے پیش نظر اب ان کیلئے وزارت عظمیٰ کی خواہش کا تعاقب لاحاصل ہوگا، تاہم اس مقصد کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اپنی بھرپور انتخابی مہم کے دوران جلسوں، ریلیوں، ٹی وی ٹاک شوز اور انٹرویوز میں اپنے وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار ہی نہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے آئندہ وزیراعظم وہ خود ہوں گے۔ آصف علی زرداری بھی اپنی اس خواہش کا اظہار بار بار کرچکے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کا ثمر بلاول بھٹو کو وزیراعظم کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو نے اپنا نام وزیراعظم کے منصب کیلئے اتفاق رائے سے منظور بھی کرالیا تھا اور انتخابی مہم کی آخری شب بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں ان کا یہ کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں وزیراعظم پہلا آپشن اور متبادل آپشن بھی میں ہی ہوں۔ پھر سابق وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے منصب کا حصول انہوں نے اپنی خواہش پر تقاضے کے انداز میں کیا تھا جس میں یقیناً ان کے والد کی ہدایت اور مشاورت بھی شامل رہی ہوگی۔ اس حوالے سے اس وقت یہ ذکر بھی خوب ہوا تھا کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور پھر وزیراعظم بنے تھے، ان کی والدہ بینظیر بھٹو بھی خارجہ امور میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں اور انہوں نے اپنی عملی سیاست کے آغاز میں پاکستان کی وزارت خارجہ میں کچھ عرصہ بطور ٹرینی بھی گزارا تھا۔ اس لئے پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کا وزیر خارجہ بننا اسی سلسلے کی ایک کڑی اور آئندہ کیلئے ملک کا وزیراعظم بننے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ تاہم یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ اقتدار کا اونٹ

الیکشن کے بعد نئی حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟

کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Back to top button