کیا بلاول سیاسی بابے ”آؤٹ کلاس“ کر پائیں گے؟
انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوتے ہی بلاول بھٹو زرداری ایک نئے روپ، ایک بدلے ہوئے سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر ان کے اس بیانیے نے تو سیاسی اکھاڑے میں گویا آگ لگا دی کہ سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو اب آؤٹ ہو جانا چاہیئے۔ یہ نیا دور ہے، اس کے ساتھ چلنا ہے تو جوان خون کو آگے لائیں۔
بات تو سیدھی تھی کہ نوجوان سیاستدان ہی وقت کی ضرورت ہیں۔ ویسے بھی بار بار اقتدار ایک ہی جماعت کی جھولی میں ڈالنے کی بجائے دوسروں کو بھی موقع دیں۔۔ اور لیجنڈ سیاستدان کرسیء اقتدار سنبھالے بغیر بھی اپنے تجربوں سے ملک اور حکومت کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
یہ قطعی بلاول کی ذاتی رائے تھی، کسی مخصوص سیاستدان کو ٹارگٹ کرنا بھی ان کا ہرگز مقصد نہیں تھا لیکن والد محترم نے نہ جانے کیسے بلاول کا یہ بیان ان کی انقلابی سوچ سے جوڑ دیا اور ایک ٹی وی انٹرویو میں بیٹے سے باقاعدہ ”پدرانہ“ گلے شکوے بھی کر ڈالے۔۔اب جتنے منہ اتنی باتیں،
جبکہ بلاول کے اپنے بابا آصف علی زرداری سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، اینڈ آف دی ڈے وہ کرتے وہی ہیں جو بابا چاہتے ہیں۔۔ کیونکہ باپ بیٹے کے بیانیے میں تو ٹکراؤ ہو سکتا ہے، مزاج بھی مختلف ہو سکتے ہیں، سیاسی وژن میں بھی اونچ نیچ ممکن ہے لیکن بلاول جانتے ہیں کہ سیاست کا جو سبق انھیں زرداری پڑھاتے ہیں وہ نہ صرف ان کے تجربوں کا نچوڑ ہوتا ہے بلکہ سیاسی کامیابی کا ہر دروازہ بھی انہی کی دی ہوئی ” کُنجی“ سے کھلتا ہے۔
ابھی کل کی بات لگتی ہے جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئی تھیں، بلاول کا اس وقت سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ سیاسی تجربہ تو دور کی بات، وہ چونکہ ابھی سٹوڈنٹ تھے تو سیاسی بیٹھکوں سے بھی دور تھے۔
یہ ان کے والد محترم آصف علی زرداری ہی تھے جو دور کی کوڑی لائے۔۔ ”ناؤ آر نیور“ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے بی بی شہید کی خواہش کے احترام میں بلاول کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایسا نہیں کہ اس کے بعد وہ بیٹے کی تعلیم و تربیت سے غافل ہو گئے بلکہ سیاست کے تمام ردیف اور قافیے، جس طرح بلاول کو سمجھائے گئے شاید ہی سیاست کے کسی طفل مکتب کی ٹریننگ اس ڈھنگ سے ہوئی ہو۔ نشست و برخاست سے لے کر ادب آداب اور زبان و بیان، ہر پہلو سے وہ انھیں پرفیکٹ دیکھنا چاہتے تھے۔
اگرچہ بلاول کی سیاسی عمر بہت کم ہے لیکن ایک دینا ان کی سوجھ بوجھ، فراست اور معاملہ فہمی کی گواہ ہے۔ گذشتہ برس عمران خان کے کِک آؤٹ ہونے کے بعد جب شہباز شریف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاور میں آئے اور وزات خارجہ کا قلمدان پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا تو بلاول نے جھٹ انکار کر دیا۔
یوں تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذولفقار علی بھٹو کے پاس بھی ایوب دور میں کم عمر لیکن انتہائی دبنگ وزیر خارجہ رہ چکے لیکن بلاول ابتداء میں تھوڑے شش و پنج کا شکار ہوئے۔ پارٹی کے اندر سے بھی متضاد آراء سامنے آ رہی تھیں۔ اکثریت کا خیال تھا کہ پارٹی چیئرمین کو حریف جماعت مسلم لیگ ن کی سربراہی میں کسی قسم کا ”پورٹ فولیو“ قبول نہیں کرنا چاہیئے۔
اس وقت بھی یہ آصف زرداری ہی تھے جن کی دوراندیشی اور سیاسی فہم آڑے آئی اور بلاول نے خوشدلی سے فارن آفس کا چارج سنبھال لیا۔۔اور پھر سیاسی مخالفین بھی انگشت بداں رہ گئے جب بلاول نے اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ بحال کی بلکہ عالمی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ اس شان سے لڑا کہ بھارتی سورماؤں کے بھی چھکے چھُڑا دیئے۔
خیر مختصر مدت کی پی ڈی ایم حکومت چلتی بنی، عام انتخابات کی تاریخ دے دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی بھی ہو چکی، حدیبیہ پیپر ملز اور العزیزیہ جیسے ”کورونِک“ ریفرنسز سے بریت، گویا اسلام آباد کی طرف اڑان بھرنے کے لئے تیاریاں مکمل ہیں۔۔اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے جیالے پُرجوش اور لیڈر بلاول بھٹو زرداری پُراعتماد نظر آ رہے ہیں۔
بلاول نے جہاں شہر شہر دوروں اور پارٹی کی تنظیمی میٹنگز سے سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے وہیں ان کے اگریسو بیانیے اور مخالفین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی ”وکھری“ تکنیک سے بھی بہت سوں کے کان کھڑے ہو چکے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ منجھے ہوئے سیاستدانوں جیسا علم اور تجربہ نہیں رکھتے لیکن وہ کب، کہاں اور کیسے مخالفین کو چِت کر دیتے ہیں؟ یہ بڑے بڑے جفادری اور گھاگ سیاستدان بھی نہیں سمجھ پائے۔
اب دیکھنا یہ کہ والد کی عقاب جیسی نظروں کے حصار میں پروان چڑھنے والے، ملکی سیاست کے نبض شناس، عالمی سیاست کے مزاج آشنا اور عوام کے دلوں میں اُتر جانے کا ہنر رکھنے والے بلاول،
کیا عام انتخابات میں وکٹری سٹینڈ پر بھی کھڑے ہوں گے؟