عمران کے دوست جاوید آفریدی کا اربوں کا کرپشن سکینڈل

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور دوست جاوید آفریدی کا اربوں روپے کی کرپشن کا ایک بڑا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کے سابق پرسنل سیکرٹری اعظم خان، ممبر کسٹم طارق ہدا اور ایم جی موٹرز کے مالک جاوید آفریدی نے پاکستان امپورٹ کی جانے والی ہزاروں گاڑیوں کی انڈر انوائسنگ کر کے اربوں روپے کی کسٹمز ڈیوٹی بچائی۔

2021 میں عمران خان کے دوست اور پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کی ایم جی آٹو موٹرز نے دس ہزار سے زیادہ گاڑیاں درآمد کرتے ہوئے ممبر کسٹمز طارق ہدا کی مدد سے اربوں روپے کی کسٹم ڈیوٹی کا فراڈ کیا جس میں سے اعظم خان کو بھی حصہ ملنے کی اطلاع ہے۔ امپورٹ کی جانے والی گاڑی کی قیمت اصل قیمت سے بہت کم ظاہر کی گئی اور اس معاملے میں انڈرانوائسنگ کی گئی تاکہ کسٹمز ڈیوٹی بچائی جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب کچھ کسٹم افسران نے اس فراڈ پر اعتراض اٹھایا تو ممبر کسٹمز طارق ہدا نے ان کا فورا ًتبادلہ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور وزیر خزانہ کی سرپرستی کی وجہ سے طارق ہدا نے لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا۔ 20 اپریل 2022 کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے جاوید آفریدی کے فراڈ کا معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اٹھایا اور چیئرمین ایف بی آر کو تفتیش کرکے ایک مہینے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا۔ چیئرمین ایف بی آر نے چار ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس معاملے کی چھان بین کرے اور اربوں روپے کے فراڈ میں ملوث ذمہ دارن کا تعین کرے۔

چیئرمین ایف بی آر نے حکم دیا ہے کہ اس کیس میں ایڈجوڈیکیشن پروسیڈنگز کو دوبارہ کھولا جائے اور کمیٹی اپنی رپورٹ 15 مئی 2023 تک پیش کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ ماضی قریب میں بھی یہ کیس کھولنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اعظم خان کے دباؤ پر ایڈجوڈیکیشن پروسیڈنگ کا فیصلہ ایم جی آٹو موٹرز کے حق میں کر دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بھی ممبر کسٹمز طارق ہدا نے کلکٹر ایڈجوڈیکیشن پر دباؤ ڈالا تھا اور اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کر لیا تھا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایم جی موٹرز سکینڈل کے حوالہ سے ٹویٹ کی ہے جس کو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس فراڈ پر آواز اٹھائی تھی اور اب اس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے دور میں ستارہ امتیاز حاصل کرنے والے ایم جی موٹرز کے مالک جاوید آفریدی نے خواجہ آصف کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی بھی فورم پر تحقیقات کے لیے تیار ہیں، جو کام بھی ہوا وہ قانونی تھا اور تحقیقات ہوں گی تو سچ سامنے آ جائے گا۔

اس دوران ایم جی موٹرز پر انڈر انوائسنگ کے الزامات کے بعد پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کمپنی کی جانب سے امپورٹ کی گئی گاڑیوں کے ریکارڈ کا آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ذمہ داری پورسٹ کلیئرنس آڈٹ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے حوالے کی گئی ہے تا کہ اس کا گہرائی سے جائزہ لے کر رپورٹ بنائی جاسکے۔ ایف بی آر کی تحقیقات کا مقصد انڈر انوائسنگ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان کا اندازہ لگانا ہے۔

خیال رہے کہ ایم جی موٹرز کی گاڑیاں پاکستان میں جے ڈبلیو نامی مقامی کمپنی منگوا رہی ہے جسے حال ہی میں ملک میں مقامی سطح پر ان کاروں کی تیاری کے لیے ’گرین فیلڈ سٹیٹس‘ ملا ہے۔ ایم جی کی گاڑیاں پاکستان لانے کے لیے اس کمپنی کا معاہدہ چینی سرکاری کمپنی ’ایس اے آئی سی‘ سے ہوا تھا۔ ایم جی پاکستان کے اہم سٹیک ہولڈر جاوید آفریدی نے اپنی کمپنی پر لگنے والے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ملک کی ’بڑی آٹو کمپنیوں نے سستی گاڑیاں امپورٹ کرنے سے روکنے کے لیے اداروں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔‘

ایم جی کی برطانوی ویب سائٹ کے مطابق اس کار کی ریٹیل پرائس 17 ہزار یورو یا 20 ہزار ڈالرز ہے اور ٹیکس کے بعد یہ 25 ہزار ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت یہ درآمد شدہ کار لگ بھگ 55 لاکھ میں خریدی جا سکتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں انڈر انوائسنگ ایک غیر قانونی عمل سمجھا جاتا ہے جس میں ٹیکس سے بچنے کے لیے درآمد شدہ اشیا کی اندازاً قیمت نہایت کم ظاہر کی جاتی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق انڈر انوائسنگ اور غلط اعداد و شمار یا مِس ڈکلیریشن کی وجہ سے نہ صرف حکومتی ریونیو اور مقامی صنعت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ تجارتی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کو بھی فروغ ملتا ہے۔‘

بتایا گیا ہے کہ انڈر انوائسنگ کی روک تھام کے لیے کسٹمز کی جانب سے درآمد شدہ چیزوں کی درست قیمت کا تعین کیا جاتا ہے تاکہ اس کے تحت ان پر موزوں ٹیکس اور ڈیوٹی عائد کی جا سکے۔ لیکن پی ایس ایل کی ٹیم پشاور زلمی اور ہایئر پاکستان کے سربراہ جاوید آفریدی نے کہا ہے کہ ’سستی گاڑیاں پاکستان میں آنے کی راہ میں بڑا مافیا رکاوٹ بن گیا‘ ہے۔ ایم جی موٹرز کی گاڑیاں پاکستان میں درآمد کرنے میں جاوید آفریدی کا نمایاں کردار رہا ہے۔

ان کی مدد سے مقامی کمپنی جے ڈبلیو ایس ای زی اور چینی سرکاری آٹو کمپنی ایس اے آئی سی کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ جاوید آفریدی نے سوشل میڈیا پر الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان میں سستی گاڑیاں امپورٹ کرنے کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈالنے کے لیے آٹو مافیا سرگرم ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پہلے سے موجود بڑی کمپنیوں میں پاکستان میں نئی سستی معیاری گاڑیاں آنے کی خبروں سے کھلبلی مچ گئی۔

پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو 6 مئی کیلئے طلبی نوٹس جاری

انھوں نے اپنے ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بڑی آٹو کمپنیوں نے سستی گاڑیاں امپورٹ کرنے سے روکنے کے لیے اداروں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم سستی، معیاری، کم قیمت پر گاڑیاں پاکستان میں ضرور لائیں گے، اور کسی بھی قسم کا پراپیگنڈہ ہمین عوام کو سستی معیاری گاڑی فراہم کرنے سے روک نہیں سکتا۔

Billions corruption scandal of Imran’s friend Javed Afridi video

Back to top button